Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Wednesday, July 13, 2011

اردو تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت : اطہر رضوی

کنیڈا میں اردو کا چراغ روشن کرنے والے اطہر رضوی کثیر الجہات شخصیت کے حامل ہیں۔آپ شاعر، سیر نگار، سفر نامہ نویس، مورخ اور محقق ہیں۔آپ کی کئی کتابیں بین الاقوامی شہرت رکھتی ہیں۔آپ نے کنیڈا میں کئی بین الاقوامی عالمی سمینار کرائے ہیں۔آپ غالب اکیڈمی، کنیڈا کے بانی و صدر ہیں، جس کے تحت آپ گزشتہ 25برسوں سے غالب کی زمین میں طرحی مشاعرہ کرارہے ہیں۔گزشتہ دنوں جب وہ دہلی تشریف لائے تھے،تو چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے سینئر نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی نے ان سے خصوصی گفتگو کی۔ گفتگو کے اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال:کنیڈا میں اردوکی کیا صورتحال ہے؟
جواب:کنیڈا میںاس وقت اردو کی جوحالت ہے وہ برطانیہ ، یورپ ،شمالی امریکہ اورہند و پاک کے بہت سے علاقوں سے بہتر ہے۔وہاںاردو کی بہت سی انجمنیں ہیں۔ وہاںاچھی خاصی تعدادمیں جلسے، ادبی تقریبات اور مشاعرے ہوتے ہیں۔آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ وہاں بھی اردو کے حوالے سے یہ سب سرگرمیاں ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے  کہ وہاں اردو کے چاہنے والے اتنے لوگ جمع ہو گئے ہیں کہ وہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔احمد اکرام بریلوی صاحب وہاں رہتے ہیں۔ وہ اردو دنیا کی معمر ترین شخصیت ہیں۔وہاں اردو دنیاکاایک بہت بڑا نام تقی عابدی کا ہے۔وہ غیر معمولی شخصیت کے حامل شخص ہیں۔جس طرح وہ اپنی پروفیشنل زندگی کے ساتھ ادب کی خدمت کررہے ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔ان کی لائبریری دنیا کی عظیم ترین نجی لائبریری ہے۔وہاںاشفاق حسین ہیں، جو بہت اچھے شاعر ہیں۔نسیم سید ہیں،عبداللہ جاوید ہیں،تسلیم زلفی ہیں۔وہاں ایسے بیس پچیس لوگ ہیں جو صاحب کتاب ہیںاور اردوکی اپنے اپنے طریقے سے خدمت کرہے ہیں۔وہاں اردو والوں کا ایک دوسرا طبقہ ہے،جسے اردو کاشوق تو بہت ہے لیکن اتنی علمیت نہیں ہے۔وہ لکھتے نہیںہیں لیکن اردوکو پڑھتے ضرور ہیں۔وہاں تیسرے قسم کے وہ لوگ ہیں جنہیں مشاعرہ میں تفریح کا سامان میسر ہوتا ہے۔وہ مشاعروں میں صرف تفریح کے لیے آتے ہیں۔اس طرح وہاں اردو کے تین قسم کے دوست ہیں۔یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ ٹورنٹو سے اردو کے16 اخبار نکلتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں اردو کے قارئین کی ایک اچھی خاصی تعدادموجود ہے۔
سوال:مجموعی طور پر اردو کا مستقبل کیسا ہے؟
جواب:مجھ سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اردو کا مستقبل کیا ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ جب تک بالی ووڈ کی فلمیں لوگ دیکھتے رہیں گے، اردوزندہ رہے گی۔لیکن یہاں پر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں تک اردو بولنے کی زبان ہے، سمجھنے کی زبان ہے، تفریح کی زبان ہے،رابطہ کی زبان ہے ،وہ تو باقی رہے گی، لیکن نوشتہ زبان ختم ہو جائے گی۔جب ہندوستان میں یہ صورتحال ہے تو باقی ملکو ں کا کیا کہنا۔
سوال:اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتائے؟
جواب:میرا بچپن میری زندگی کا سنہری ترین حصہ ہے۔میری پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ اورنگ آباد میرے لیے غیر معمولی جگہ تھی۔یو پی کے کچھ خاندان سو سال پہلے ہجرت کرکے لکھنؤ سے اورنگ آباد آگئے تھے۔ انہوں نے اپنی تہذیب نہیں بدلی،وضع نہیں بدلی، اطوار نہیں بدلے،مذہبی فرائض نہیں بدلے،اورچونکہ رہ رہے ہیں دکن میں تو نتیجتاًایک ذیلی تہذیب پیدا ہوئی۔آدھی دکنی اور آدھی لکھنوی۔ہم اسی کی پیداوار تھے۔میں نے شاعری وہیں سے شروع کی تھی۔بچپن سے ہی میں سوچتا رہتا تھا۔میں نے 12سال کی عمر میں ہی نظام کے خلاف بہت ساری چیزیں لکھیں۔وہاں کی اپنی ایک تہذیب تھی۔کیا مجال جو ہم بڑوں کے سامنے منہ کھول سکیں۔اسی تہذیب کا ورثہ ابھی بھی شریانوں میں ہے۔میں وہاں سے کراچی گیا۔ چار سال وہاں رہا۔وہیںسے ایم اے کیا۔ پھر لندن گیا۔ گیارہ سال وہاں رہا۔وہاں میں نے شادی کی۔ میری بیوی جرمن ہے۔میرے بچے انگریزی بولتے ہیں اور میں اردو پر مرتا ہوں۔میں آج جو کچھ ہوں وہ مجھے لندن نے بنایا۔لندن نے مجھے سوچنے کی تربیت دی۔دنیا کی سب سے بڑی دانشورانہ درس گاہ لندن ہے۔وہاں اقبال بھی رہے، گاندھی بھی رہے۔لندن بڑے بڑے لوگوں کی قیام گاہ رہا ہے۔میں نے وہاں سیاحت شروع کی اور پڑھنا شروع کیا۔میں برٹش ریلوے میں کام کرتا تھا۔اسی لیے مجھے ٹکٹ مفت ملتے تھے۔ میں لندن سے پیرس ایسے جاتا تھا جیسے آپ یہاں سے کسی قریبی جگہ چلے جائیں۔جب میں اسپین گیا تو اسپین نے میری آنکھیں کھولیں۔میںاسپین کی مسجد قرطبہ میں گیا، جہاں اقبال نے بیٹھ کراردو کی عظیم ترین نظم کہی تھی۔وہاں میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ اسلامی تہذیب بھی کوئی چیز ہے۔ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کیا سوغاتیں چھوڑ رکھی ہیں۔وہاں سے واپس آکر میں نے ترکوں کی تاریخ، عربوں کی تاریخ، اندلس کی تاریخ، ایرانیوں کی تاریخ وغیرہ پڑھنی شروع کیں۔ وہیں سے فلسطین کا مسئلہ مجھ پہ اثر کرتا گیا۔اس کے بعد میں نے گہرائی سے مطالعہ کیا ۔برطانیہ کے لوگوں کی ایک خاص دہنیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کو نوکری دے دیں گے، گھر دے دیں گے لیکن ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔اسی لیے میں لندن کو چھوڑ کر کنیڈا چلا گیا۔ کیوں کہ وہ ایک کھلی جگہ ہے۔وہاں برابر کے مواقع دئے جاتے ہیں۔وہاں میں بڑی بڑی کمپنیوں کے پراسپیکٹس لکھتا تھا۔اس کے بعد میں بیس پچیس سال انشورنس کمپنی میں رہا۔ایک خاص بات یہ ہے کہ میں لندن میں اردو سے زیادہ قریب نہیں تھا۔جب میں ٹورنٹو پہنچا تو وہاں ایک عبدالحفیظ قریشی صاحب تھے۔وہاںانہوں نے پہلی مرتبہ ہندوستانی شعرا کو بلایاتھا۔اس وفد میں کیفی اعظمی تھے،مینا قاضی تھیں، جاں نثار اختر تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی بڑے شعرا ہندوستان سے گئے تھے۔اس مشاعرہ کو دیکھ کرمجھے بڑا مزا آیا۔ میں نے سوچا کہ ایسا ہی مشاعرہ پہلی مرتبہ پاکستانی شعرا کو بلا کر کیوں نہ کرایا جائے۔اس طرح میں نے پاکستانی شعرا کے ایک وفد کو شمالی امریکہ میں پہلی بار بلوایا۔مشاعروں کے علاوہ میں نے بڑے بڑے سمینار بھی کرائے ہیں،جو امریکہ میں کسی نے نہیں کرائے ہیں۔عالمی غالب سمینار، عالمی میر سمینار، عالمی انیس سمینار، اردو تہذیب کی بستیاں سمیناروغیرہ۔ہر سمینار میں میں نے ہندوستان اور پاکستان کے جید عالموں کو دعوت دیکر انہیں بلایا۔میں اپنی بیوی کے ساتھ1981میں نظام الدین کسی کام سے آیا تو دیکھا کہ وہاں غالب کے بارے میں ایک تقریب ہو رہی تھی۔اس کے بعد میں نے ٹورنٹو پہنچ کر غالب اکیڈمی، ٹورنٹو قائم کی۔غالب اکیڈمی ، ٹورنٹو ہر سال غالب کی یاد میں طرحی مشاعرہ کا انعقاد کرتی ہے۔جس میں غالب کے کسی مصرعہ پر شعرا کو کلام کہنے کی دعوت دی جاتی ہے۔یہ مشاعرہ تقریباً25سالوں سے مسلسل ہو رہا ہے۔
سوال:آپ بنیادی طور پر محقق ہیں۔کیا آج تحقیق میں ہونے والے کام سے آپ مطمئن ہیں؟
جواب: آج تو تحقیق کا تصور ہی نہیں ہے۔اردو میں تحقیق کی کتابیں بالکل بھی نہیں آتی ہیں ۔اگر آتی بھی ہیں تو انگریزی میں۔مغرب کے لوگ اس معاملے میں ہم سے سو سال آگے ہیں۔ان کے یہاں ایک مہینے میں پچیس کتابیں آتی ہیں۔تحقیق دراصل علمیت کا اونچا درجہ ہے۔آپ یوں سمجھئے کہ جب آپ شروع کریں گے تو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھیں گے، اس کے بعد افسانے پڑھیں گے، اس کے بعد نقد و نظر پڑھیں گے،پھراس کے بعد ہی دیکھیں گے کہ تحقیقی کام کیا ہو رہا ہے۔میری تمام نگارشات کی بنیاد چار چیزوں پر ہے۔مطالعہ،مشاہدہ،تحقیقات اور معروضات۔
سوال:اپنی شاعری کے بارے میں بھی بتائیے اورہمارے قارئین کے لیے کچھ سنانے کی زحمت بھی کیجئے؟
جواب:یاد کے موتی میراپہلا شعری مجموعہ ہے۔میرادوسرا شعری مجموعہ زیر طبع ہے۔ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
بات خاطر نشین لگتی ہے
زندگی اب رہین لگتی ہے
ان کو جس زاویہ سے دیکھتا ہوں
ان کی صورت حسین لگتی ہے
بات جب عاشقی کی ہوتی ہے
گفتگو بہترین لگتی ہے
ڈرتے ڈرتے غزل سنائی ہے
میر کی یہ زمین لگتی ہے
سوال:کنیڈا میں اردو کے تئیں حکومت کا رویہ کیسا ہے؟
جواب:میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارا ملک اللہ میاںکی نعمت ہے۔وہاں جو خوبیاں ہیں پوری دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔وہاں چار سکھ حکومت میں وزرا ہیں۔وہاں 120 ملکوں کے لوگ رہتے ہیں۔متعد د زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہر ایک کی اپنی سوسائٹی ہیں۔ہر ایک کی اپنی تقاریب ہیں۔انگریزی اور فرینچ وہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔ہر تقریب کے اندر چاہے وہ کسی بھی زبان کی ہو،حکومت کے ایم پی سے لیکر وزیر اعظم تک کوئی نہ کوئی شریک ہوتا ہے۔وہاں اگر آپ کو ئی بھی بڑا پروگرام کرتے ہیں تو حکومت امداد کرتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کنیڈا کا اس میں ضرور ذکر ہونا چاہئے۔وہاں کے کالجز میںاردو پڑھانے کا نظم ہے۔حیدرآباد کے ایک صاحب تو ٹورنٹو میں  بچوں کوبنیادی اردو سکھانے کا کام کررہے ہیں۔ان کے پاس 300بچے ہیں۔کل ملاکر میں یہی کہوں گا کہ کنیڈا کی حکومت سیکولر ہے۔چونکہ تعصب جہالت کا پروردہ ہوتا ہے۔جو آدمی جتنا جاہل ہوگا وہ اتنا ہی متعصب ہوگا۔اس لیے کنیڈا میں تعصب جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
سوال:آخر میں ہمارے قارئین کے لیے کچھ اور عطا کیجئے؟
جواب:ایک غزل حاضر ہے۔
ہوا کی زد میں نصیب سفال کیا ہوگا
قضا اٹل ہے تو اس کا ملال کیا ہوگا
اگر وہ پوچھیں کہ میں کیو ںاداس لگتا ہوں
تو اس سوال سے مشکل سوال کیا ہوگا
میں سوچتا ہوں مسلسل جواب کی خاطر
ترے خیال سے بہتر خیال کیا ہوگا
سکون قلب نہیں جان کی امان تو ہے
اب اس سے اچھا مہاجر کا حال کیا ہوگا
نہ ہم گزیدۂ حالات ہیں نہ اہل طلب
کھرا کھرا جو لکھیںہم کمال کیا ہوگا
غریب بار عنایت اٹھائے سوچتے ہیں
یہی کرم ہے تو ان کا جلال کیا ہوگا
نام کتاب    :    سہ ماہی حسن تدبیر(مدارس نمبر)
مدیر    :    مولانا محمداعجاز عرفی قاسمی
صفحات    :    654
قیمت    :    200روپے
ملنے کا پتہ    :    Q-25 بٹلہ ہاؤس ، جامعہ نگر، نئی دہلی
تبصرہ نگار    :  فرمان چودھری
ہندوستان کے مدارس اسلامیہ تعلیم کے ایسے ادارے ہیں، جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو انسان دوستی،امن عالم، اخوت اور بھائی چارہ گھٹی کی طرح پلایا جاتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ مدارس اسلامیہ نے وطن عزیز کے تحفظ کے لیے بے دریغ قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔اس کے با وجود چند فرقہ پرست عناصر مدارس اور اہل مدارس کو ہمیشہ شک و شبہات کی نظر بد سے دیکھتے رہے ہیں،جو نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ فرقہ پرست یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جس آزاد ملک میں وہ آج کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اسے آزاد کرانے میں انہی مدارس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اس حقیقت سے نئی نسل کو واقف کرانے اور مدارس اسلامیہ کی صحیح تصویر پیش کرنے کے مقصد سے آل انڈیا تنظیم علماء حق نے اپنے سہ ماہی رسالہ حسن تدبیر کا خصوصی شمارہ’’ مدار س نمبر‘‘ کی شکل میں پیش کیا ہے۔اس خصوصی اشاعت کا مقصد بیان کرتے ہوئے مدیر مکرم نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’مثبت مضامین کے ذریعہ اس منفیت کا ازالہ کیا جا سکے جو بہت سے ذہنوں پر طاری ہے اور اس کی بہتر شکل یہی نظر آئی کہ ماضی سے لیکر عہد حاضر تک کے مدارس کی روشن تاریخ اور روایت کے حوالے سے دانشورانہ سطح پر گفتگو کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ معاشرے کی ساخت کو سالم رکھنے اور صحیح قدروں کی ترویج میں مدارس نے کتنا اہم رول ادا کیا ہے‘‘۔
اس خصوصی اشاعت سے قبل حسن تدبیر کے کئی خصوصی شمارے دیگر موضوعات پر شائع ہو چکے ہیں۔ مثلاً حکیم الامت نمبر، حکیم الاسلام نمبر، امام العصر نمبر اور محدث عصر نمبر وغیرہ۔ لیکن ان اشاعتوں میں مدارس نمبر اس لیے زیادہ اہم ہے کہ آج نہ صرف برادران وطن بلکہ خود برادران اسلام بھی مدارس اسلامیہ کے شاندار ماضی سے نابلد ہیں۔
مذکورہ نمبر کوتین حصوںباب مدارس، باب تعلیم اور باب تنظیم کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔باب مدارس میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔باب تنظیم میں آل انڈیا تنظیم علماء حق کی تاریخ اور خدمات کا ذکر ہے۔جبکہ باب تعلیم کے تحت شامل مضامین میں دینی مدارس کی اہمیت، افادیت اورمدارس کو درپیش چیلنجزکے تعلق سے مبسوط مضامین شامل کئے گئے ہیں۔حصہ  باب تعلیم دیگر دو ابواب کے مقابلے زیادہ ضخیم ہے اور اہم بھی۔اس حصہ میں دینی مدارس اہمیت اور افادیت(مولانا سید رابع حسنی ندوی) دینی مدارس، اصلاح وقت کی اہم ضرورت(ڈاکٹر محمد طاسین) دینی مدارس کا نصاب و نظام اور عصر حاضر کے تقاضے(پروفیسر اختر الواسع) ملک و ملت کی ترقی اور استحکام میں مدارس اسلامیہ کا کردار(مفتی افروز عالم قاسمی) ہندوستان میں آزادی کے بعد مدارس اسلامیہ کی خدمات(ابرار احمد اجراوی)عربی مدارس کا نصاب تعلیم اور عصری تقاضے(مولاناندیم الواجدی)دینی مدارس کے اساتذہ کا سماجی رول(مولانا وارث مظہری) مدارس کا ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج(مفتی اعجاز ارشد قاسمی) جیسے بہت سے مضامین ہیں، جنہیں پڑھ کر مدارس اسلامیہ کی عظمت کا لوہا مانے بغیر کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں رہ سکتا۔دینی مدارس اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں کے عنوان سے تحریر اپنے مضمون میں نسیم احمد غازی فرماتے ہیں’’مسلمانوں پر ایک بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اور انہیں نہ صرف یہ کہ ان حالات کو بدلنا ہے بلکہ مدارس کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے سلسلے میںہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ایک خاص گروپ کے عزائم نہایت خطرناک ہیں۔عقلمندی اور دانشمندی اسی میں ہے کہ ان واضح اشاروں کو محسوس کیا جائے اور کوئی مثبت لائحہ عمل تیار کیا جائے‘‘۔
کل ملاکر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سہ ماہی حسن تدبیر کا یہ خصوصی شمارہ مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن شاید اس کی اشاعت میں بہت جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہے کیونکہ شمارہ میں پروف کی بہت سی غلطیاں ہیں۔بہر حال امید کی جاتی ہے کہ یہ خصوصی شمارہ دینی مدارس کے متعلق پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کے ازالہ میں معاون ثابت ہوگا۔

Friday, April 22, 2011

Tabsara on maulana muhammad ali jauhar taqseem award ki 22 sala rudad(mujalla)

نام کتاب    :    مولانا محمد علی جوہرتقسیم ایوارڈ کی22سالہ روداد(مجلہ)
زیر اہتمام    :    مولانا محمد علی جوہراکیڈمی ،دہلی
صفحات    :    260
قیمت    :    درج نہیں
ملنے کا پتہ    :    ایم سلیم،ایچ136،نیو سیلم پور، دہلی
تبصرہ نگار    :   فرمان چودھری
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا آزاد ہندوستان کی بدقسمتی کہ آج ہم نے مولانا محمد علی جوہر ؔجیسے عظیم مجاہد آزادی کو یکسر فراموش کردیاہے۔ آج کی نوجوان نسل مولانا کے بارے میں صرف اتنا جانتی ہے کہ مولانا ایک شاعر تھے، جبکہ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے جدوجہد کی۔1930میں جب مولانا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے لندن تشریف لے گئے تو انہوں نے وہاں انگریزوں سے دو ٹوک کہا کہ یا تو مجھے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ دو یا پھر قبر کے لیے دو گز زمین۔ کیوں کہ میںغلام ہندوستان میںواپس جانے سے آزاد انگلستان میں مرنا بہتر سمجھتاہوں۔بالآخر مولانا نے اپنے اس قول کو سچ ثابت کرکے دکھایا۔اس کے باوجود آزاد ہندوستان کی تمام سرکاریں مولاناکو نظر انداز کرتی رہیں۔لیکن کچھ ایسے جیالے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض کے ،بغیر کسی حکومتی امداد کے وطن کے ان سپوتوں کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں، جن کی قربانیوں کے بدلے میں ہم آج آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک جیالے کا نام ایم سلیم ہے، جس نے 1974 میں مولانا کے آبائی وطن رامپور میں مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی قائم کی اورجب ذاتی وجوہات سے دہلی تشریف لے آئے تو جوہر اکیڈمی کو بھی دہلی منتقل کردیا۔ایم سلیم تب سے لیکرآج تک اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
زیر نظر مجلہ میں ان ایوارڈ کی تفصیلات ہیں جو مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی کے ذریعہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کوہر سال دئے جاتے ہیں۔ 1989سے شروع ہوا ایوارڈ دینے کا یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی ان 22سالوںمیں ملک کی135 نامور شخصیات کو ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔جوہر اکیڈمی نے اب تک جن لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا ہے، ان کے شخصی خاکہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ایم سلیم نے اپنی صحافتی صلاحیت سے تحریر کرکے اس مجلہ میں شامل کئے ہیں۔
مجلہ کی ابتدا میں فصیح اکملؔ قادری کی نعت ہے۔اس کے بعد اکیڈمی کے قیام کی رودادہے، جس کے بعد مولانا جوہرؔکی منتخب غزلیں ’کلام جوہر‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہیں۔مجلہ میں مولانا جوہر اور ان کی والدہ کے حوالے سے کئی مضامین بھی ہیں۔ان میںڈاکٹر ظہیر علی صدیقی کا’آبادی بیگم،بی اماں‘فضل حق عظیم آبادی کا’ بی اماں‘وصی احمد نعمانی کا’ ہندوستان کا جیالا سپوت محمد علی جوہر‘جلال الدین اسلم کا ’مولانا محمد علی جوہر‘طالب رامپوری کا’ مولانا محمد علی جوہر اور قومی یکجہتی‘ایم سلیم کا ’مولانا محمد علی جوہر ایک انقلابی رہنما‘ڈاکٹر شمیم احمد کا’مولانا محمد علی جوہر ایک عظیم مجاہد آزادی‘اورضیاء الرحمٰن غوثی کا’قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا محمد علی جوہر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ گول میز کانفرنس ، لندن میں کی گئی مولانا کی تاریخی تقریر کو بھی شامل اشاعت کرکے مجلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مجلہ میں ڈاکٹر گلزار دہلوی، آل احمد سروراور ڈاکٹر شوق اثری کی مولانا کو منظوم خراج عقیدت بھی ہے۔ آل احمد سرور کی منظوم خراج عقیدت کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے۔
با طل کے سامنے نہ جھکا جو تمام عمر
ہندوستاں تجھے وہ قلندر بھی یاد ہے
بجلی تھا جس کا ذہن، نظر تیغ تیز تھی
آئینہ حرم کا وہ جوہر بھی یاد ہے
جوہر اکیڈمی نے2010سے مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں کے نام پر بھی بی اماں ایوارڈ شروع کیا ہے۔پہلا ایوارڈ محترمہ کامنا پرساد کو ان کی اردو خدمات کے لیے دیا گیاہے۔امید کی جانی چاہئے کہ مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی اسی طرح مولانا کی یاد کو برادران وطن کے گوش گزار کراتی رہے گی۔

Saturday, April 16, 2011

Tabsara on Ameer Khusro (musical opera)

نام کتاب    :    امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)
مصنف    :    فصیح اکملؔ
صفحات    :                 94
قیمت    :     100روپے
ملنے کا پتہ    :    ایم آر پبلی کیشنز ،پٹودی ہاؤس،
دریاگنج ،نئی دہلی
تبصرہ نگار    :   
فرمان چودھری
فصیح اکمل ؔقادری کا نام دنیائے اردو میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔آپ روایت شکن کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مستند اور عہد ساز نثر نگار ہیں۔آپ کے فنی جوہر نظم اور نثر دونوں میں یکساں طور پر نظر آتے ہیں۔موصوف کی تازہ تصنیف امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)نہایت ہی قابل قدر کتاب ہے، جس سے حضرت امیر خسروؒ کے حالات و کوائف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔فصیح اکملؔ حضرت امیر خسروؒ سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں۔اور عقیدت بھی کیوں نہ ہو، جب بزرگان دین سے عقیدت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا سید انوار حسین قادریؒ جید عالم دین اور آستانۂ حضرت فخر عالم قادریؒ کے صاحب سجادہ تھے، جن کانسبی سلسلہ حضرت غوث اعظم علیہ الرحمتہ سے ملتا ہے۔
حضرت امیر خسرو ؒ پر لکھے گئے اس میوزیکل اوپیرا سے مصنف کے صوفیانہ مزاج کی تصدیق ہوتی ہے۔زیر نظر کتاب کو مصنف نے تین ایکٹ میں تقسیم کیا ہے اور ہر ایکٹ میں سات سات مناظر ہیں۔ ایکٹ اور مناظر کی اس تعداد سے بھی مصنف کے صوفیانہ مزاج کی وضاحت ہوتی ہے۔بہر حال فصیح اکمل اس کتاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں جہاں دیگر پریشانیوں سے دو چار ہوئے وہیں حضرت امیر خسرو ؒسے متعلق تاریخی حوالوں میں تضاد سے بھی انہیں کافی دشواری ہوئی۔اس لیے اپنے پیش لفظ میں صاحب کتاب نے شاعرانہ تخیل کے سہارے پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے’’کسی ایک شخصیت کو تاریخ کے الجھے ہوئے اوراق سے صاف کرکے نکالنا اور اس کے نقوش کو واضح کرکے دیکھنا اور دکھانا ان تاریخی اصنام کی گرد جھاڑ کر پھر سے سجانا ہے جن پر صدیوں کی گرد ہی نہیں حادثات کی ضرباتِ شدید بھی اثر انداز ہوئی ہیں،اس کے علاوہ ایک ایسے معاشرہ اور ماحول کو زندہ کرکے دیکھنا پڑتا ہے جس کا اب ہلکا سا عکس بھی باقی نہیں ہے‘‘۔
امیر خسروؒ( میوزیکل اوپیرا) میں فصیح اکمل نے حضرت امیر خسرو ؒکی فارسی غزلوں، اشعار اور قطعات کا اردو داں حضرات کے لیے آسان اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ فصیح اکملؔ نے منظوم ترجمہ میں حضرت امیر خسروؒ کے شعری لب و لہجے اور آہنگ کا بھر پور خیال رکھا ہے، جو مصنف کے قادر الکلام شاعر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دوسرے ایکٹ کے تیسرے منظر میں درج خسروؒ کی فارسی غزل ’’ابرمی باردومن می شوم از یار جدا‘‘کا منظوم ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
موسم گل میں بھی ہے مجھ سے مرا یار جدا
ہو سکوں کیسے کہ جب دل سے ہے دلدار جدا
بھری برسات میں یہ عالم رخصت دیکھو
میں جدا گر یہ کناں ابر جدا یار جدا
سبزۂ گل پہ جوانی ہے مگر ہائے نصیب
بلبل زار سے ایسے میں ہے گلزار جدا
میں تو اک عمر رہا تھا تری زلفوں کا اسیر
کس طرح تونے اچانک کیا اے یار جدا
حسن کا اس کے ازل سے ہوں محافظ خسروؔ
پھول سے رہ نہیں سکتا ہے کبھی خار جدا
خسروؒ کے فارسی کلام کے منظوم ترجمہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فصیح اکملؔ یوں رقمطراز ہیں’’ایک دشواری یہ تھی کہ حضرت امیر خسروؒکے کلام کا مسئلہ کس طرح حل ہوکیوں کہ بیشتر کلام فارسی میں ہے، میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ہندی کا کلام جو مرجع ِخلائق ہو چکا ہے اور جس کو اب تک سیکڑوں گانے والے طرح طرح سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، اس کو اسی طرح رکھا جائے اور فارسی کلام کی جہاں ضرورت ہو وہاں آسان اردو میں غزل یا قطعہ یا نظم کے ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا جائے‘‘۔
کتاب کا سر ورق،طباعت اور کاغذعمدہ ہے  لیکن کچھ پروف کی غلطیاں گراں گزرتی ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب امیر خسروؒ کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گی اور اردو دنیا اس کا پرجوش استقبال کرے گی۔

Monday, April 11, 2011

Interview with Rahat Saeed Sb.


شاعر و فنکار امن کے پیامبر ہوتے ہیں: راحت سعید

فیض صدی2011کمیٹی پاکستان کے سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری راحت سعید صاحب ہندوستان میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے گزشتہ دنوں دہلی میں تشریف لائے تھے۔اس موقع پر انہوں نے چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے سینئر نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو کی۔پیش ہیں قارئین کے لیے گفتگو کے اہم اقتباسات۔
سوال:آپ کا ادبی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟

جواب:بچپن میں ہماری ماں،پھوپھیاں اور بزرگ ہم کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔بس تبھی سے سفر شروع ہوا۔اس کے بعد کوئی وقت ہم کو ایسا یاد نہیں جب ہم کلاس میں پڑھتے ہوں اور کہانیاں نہ پڑھتے ہوں۔اس کے بعد شاعری نہ پڑھتے ہوں۔مجھے یاد ہے کہ میرے والد شروع سے ہی مولانا روم اور اقبال کی مثنویاں سنایا کرتے تھے۔بعد میں جب ذہن بالغ ہوا تو ادب پڑھنا شروع کیااور تب سے اب تک ادب پڑھ رہا ہوں۔میں ہمیشہ سے ادب کا طالب علم رہا ہوں۔میرا کام بنیادی طور پر سماجی علوم کے حوالے سے ہے۔میں شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی میں کہانی کار ہوں۔لکھنے کی کوششیں کیں لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ اچھا شعر نہیں کہہ سکتے تو شاعری کرنا کار زیاں ہے۔اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ہمیں اچھے لوگ، اچھے کام اور اچھے شعر یاد رہتے ہیں۔اچھے کام سے مراد ایسے کام ہیں جو انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ ہم اسی لیے انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہیں، کیونکہ اس کی اقدار انسانی اقدار ہیںاور محبت انسانی اقدار ہے۔اقدار تو بہت سی اقسام کی ہو سکتی ہیں،جو مثبت اقدار ہیں وہ آگے جانے والی ہیں اور وہی اقدار ترقی پسند اقدار ہیں۔منفی اقدار وہ ہیں جو تاریخ کو لوٹانا چاہتی ہیں۔چاہے وہ ڈھائی ہزار سال پرانی ہوں یا چودہ سو سال پرانی۔کچھ لوگ ہندوستان میں ایسے ہیں جو تاریخ کو ڈھائی ہزار سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاریخ کو چودہ سو سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں،یہ منفی سوچ ہے۔یہ سوچ انسانوں کی بہتری کے لیے نہیں ہے۔
سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین کے پاکستان میں کیا حالات ہیں؟

جواب: تقسیم کے زمانے تک تو انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوپاک کی ایک ہی تھی ،لیکن تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین بھی تقسیم ہو گئی۔یہ پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کہلائی۔یہ 1954تک کام کرتی رہی لیکنجب امریکہ سے معاہدے ہوئے ، اس کے بعد حکومت پاکستان نے اسے بائیں بازو کی سیاسی پارٹی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی۔پابندی کے بعد یہ دیگر ناموں سے اپنا کام کرتی رہی۔اس کے علاوہ جو دیگر تنظیمیں اس وقت ادب برائے ادب کے لیے کام کرر ہی تھیں،مثلاً حلقہ ارباب ذوق ،ان میں ترقی پسند شامل ہو گئے اور کام کرتے رہے۔اس کے بعد حلقہ ارباب ذوق لاہوربھی تقسیم ہوگئی۔حلقہ ارباب ذوق ادبی اور حلقہ ارباب ذوق سیاسی۔2006میں سجاد ظہیر صدی تقریبات منعقد کی گئیں۔ارتقا ادبی فورم کے ذریعہ ہم نے ادب کا بھی کام کیا۔ ادبی سمینار بھی کئے۔ہم نے سب سے پہلا سمینار سید احتشام حسین پر1993میں کیاتھا ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار پرتقریباً400صفحات پر مشتمل ایک ضخیم نمبر بھی ہم نے شائع کیا تھا۔اس کے بعد جوش ملیح آبادی ، مخدوم محی الدین اور فراق گورکھپوری پر سمینار کئے اور ان کے اوپر خصوصی نمبر نکالے۔ جن کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی۔آپ تعجب کریں گے کہ ٹینا ساہنی نے ایک پوری شام فراق کو گایا۔ابھی تو فیض صدی چل رہی ہے لیکن اگلے سال مجاز صدی کی تقریبات ہوں گی۔اسی سال اکتوبر میں مجاز کا یوم پیدائش ہے۔یہ طے ہوا تھا کہ ہم اکتوبر میں مجاز پر ایک سمینار کریں گے لیکن چونکہ سارا زوراس وقت فیض پر ہے اس لیے مجاز کی تقریب دب کر رہ جائے گی ۔اسی لیے یہ طے ہوا کہ مجاز کی تقریبات اگلے سال ہوں گی۔
سوال:آپ کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟

جواب:بلا شبہ فیض۔اس کے علاوہ مجاز اور ساحر۔ہمارے یہاں دو اور شاعر بھی اہم ہیں ۔ایک جان ایلیا اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ہمارے یہاں ایسے بھی شاعر ہیں جو صرف پاکستان کے شاعر نہیں کہلاتے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بھی کہلاتے ہیں۔
سوال:پاکستان کے ادیب و فنکار ہندوستا ن بہت آتے ہیں لیکن ہندوستان کے ادیب اور فنکار پاکستان کم جاتے ہیں۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے ایسا بالکل نہیں ہے۔ہندوستان کے ادیب و فنکار پاکستان بہت جاتے ہیں۔ہاں یہ تعداد ہندوستان آنے والے پاکستانیوں کے برابر نہیں ہو سکتی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بازار کا اثرزندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب اور فن پر بھی پڑاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسیقی اتنی زیادہ رائج نہیں ہے جتنی ہندوستان میں۔
سوال:ادیب و فنکار امن اور دوستی بڑھانے میں کتناکام کرتے ہیں؟

جواب:دیکھئے ادیب، شاعر اور فنکار ہی امن اور دوستی کی بات کرتے ہیں۔سیاست دانوں کا کام ہے تفریق کرنا اور ادیبوں کا کام ہے جوڑنا۔میں ایک تنظیم’’قلم و فن برائے امن‘‘ کا کنوینر ہوں ، جو بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی ہے۔ہمارے ایک 50رکنی وفد کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے اسی حوالے سے دعوت دی تھی۔میں آپ کو ایک خاص بتاتا ہوں کہ اگر کوئی سیاست داں جوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے دل میں کہیں نہ کہیں ادیب چھپا ہوا ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی ہے جو سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔اسی لیے انہوں نے ہمیشہ امن او راتحاد کی بات کی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاست داں جو ادب سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں وہ بھی جوڑنے کی سیاست کرتے ہیں۔
سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے ساتھ ساتھ کیا آپ کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ ہیں؟

جواب:ہمارے یہاں کئی کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔لیکن میں ذاتی طور پر کسی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہیں ہوں۔جہاں تک سوچ کا سوال ہے تو وہ میں کمیونسٹ سوچ ہی رکھتا ہوں۔کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ اگر ہم کسی ایک پارٹی میں شامل ہو جائیں گے تو دوسری پارٹی والے انجمن کو اسی نظریہ سے دیکھیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ صرف تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان بلکہ سبھی ترقی پسند پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا پلیٹ فارم ایک ہی رہنا چاہئے۔اسی لیے میں کسی ایک کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہ ہوکر سب سے وابستہ ہوں۔
سوال:ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اردو کا کیسا مستقبل ہے؟

جواب:مجھے یہ لگتا ہے کہ جو اردو کے نام پر کام کررہے ہیںوہ صحیح ڈھنگ سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہے ہیں۔مجھے یہ لگتا ہے کہ جو لوگ خادم اردو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنی نوکریاں اور اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں۔میرے خیال سے ان لوگوں اور اداروں کو مزید سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جو لوگ یہاں عام بول چال میں ہندی بولتے ہیں دراصل وہ اردو ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2005میں جب میں یہاں ہندوستان آیا تھا توایک ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں لوگ اتنی اچھی ہندی بولتے ہیں۔میں نے کہا کہ ہاں پاکستان میں لوگ اتنی ہی اچھی ہندی بولتے ہیں جتنی کہ تم اردو بول ہے ہو۔
سوال:آپ کس طرح کے پروگرام کراتے ہیں؟

جواب:پاکستان میں ہماری 27شاخیں ہیں جہاں مختلف قسم کے پروگرام کرائے جاتے ہیں۔جیسے مشاعرہ، مذاکرہ ،شعری نشست اور سمینار وغیرہ۔کراچی میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ مہینے میں کم سے کم ایک مرتبہ ایک گیسٹ لیکچر اور ایک شعری نشست ضرور کریں گے۔نومبر میں ہم عالمگیر پیمانے پر اسلام آباد ، کراچی اور لاہورمیںپروگرام کرتے ہیں۔
سوال:فیض صدی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟

جواب:جب 2006میں ہم سجاد ظہیر صدی تقریبات منا رہے تھے تو اس میں ہندوستان کا ایک وفد پاکستان گیا ہوا تھا۔اسی وقت یہ طے ہوا کہ ہم 2011میں پوری شان و شوکت کے ساتھ فیض صدی منائیں گے۔فیض صدی تقریبات منانے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے شدت پسندانہ ماحول میں فیض کے نظریات کو عام کیا جائے گا۔تاکہ پاکستان کے مظلوموں اور مجبوروں کی آواز کو بلند کیا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں صرف شدت پسند ہی نہیں رہتے ہیں بلکہ پاکستان میں فیض کے حامی بھی رہتے ہیں جو شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین پہلے سے ہی فیض صدی منانے کے لیے تیار تھی۔

Ghalib academy mein munaqid mushaira mein kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hein janab nusrat gwaliyari, janab wiqar manvi, janab shehbaz nadeem ziyai aur mohtarma salma shaheen


Saturday, April 9, 2011

Tabsara on Nau Bahar

نام کتاب    :    نو بہار(شعری مجموعہ)
مصنف    :    اطہرؔ سہارنپوری
ضخامت    :    155صفحات
قیمت    :    150روپے
ملنے کا پتہ    :    محمد انجم،گلی نمبر45جعفرآباد، دہلی
تبصرہ نگار    :      فرمان چودھری
اردو کی جملہ اصناف ادب میں شاعری ایک ایسی صنف ہے جس میں مسلسل فکری کاوشیں جاری ہیں۔ خاص طور پر غزل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید جوان ہوتی جارہی ہے۔اردو شاعری ادب کی ایسی صنف ہے جو عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے۔اردو شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب کی دیگر اصناف میں جہاں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیں شاعری میں روز نئے نئے مجموعے شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کررہے ہیں۔حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ غزل کے علاوہ شاعری کی دیگر اصناف مثلاًمرثیہ،مثنوی اور قصیدہ میںنہ کے برابر طبع آزمائی ہور ہی ہے۔
بہر حال اطہر سہارنپوری کا پہلا شعری مجموعہ ’’نو بہار‘‘2009میں منظر عام پر آیا۔مجموعہ میں دونظموں اور چند قطعات کے علاوہ سبھی غزلیں ہیں۔اطہر سہارنپوری کی یہ غزلیں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔اس کی وجہ شاید ان کی سادگی ہے۔ موصوف اپنے اشعار میں اپنی بات کو بات بڑی سادگی سے کہہ جاتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
تصورات کی وادی میں گھومتا ہوں سدا
مری نظر میں نئے دور کا اجالا ہے
بن گیا زر سے تو میدان ادب کا ہیرو
میرے اشعار سے بھاری تری دولت ہی رہی
دیکھ کر جس کو نکلتی تھیں دعائیں دل سے
کس کو معلوم تھا اک دن وہی قاتل ہوگا
اطہر سہارنپوری محبت کے شاعر ہیں۔اپنے اشعار میں وہ جا بجا انسان دوستی، امن عالم اور مساوات کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں فکر کی گہرائی تمام تر رعنائیوں سے ساتھ موجود ہے۔ مندرجہ دو اشعار ان کے اسی شعری رویہ کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں۔
مجرم ہوں اگر جرم کا احساس دلا دو
منہ پھیر کے تم یوں نہ تغافل کی سزا دو
واقف ہے اگر عشق کے انجام سے کوئی
اس کو تو دماغی یہ خلل ہو نہیں سکتا
اطہر سہارنپوری کی شاعری پر اپنے مختصر مضمون میں ایم آر قاسمی فرماتے ہیں کہ اطہر سہارنپوری کا ملازمت پیشہ گھریلو ماحول سے نکل کر دہلی جیسے شہر کو اپنے مستقبل کا مسکن بنانا اور زندگی کے نئے رویوں کو شعری تخیلات و جذ بات میں ڈھالناانتہائی چونکا دینے والا عمل ہے۔اطہر سہارنپوری کا یہ شعری عمل در اصل ایک اندرونی احتجاج ہے ان فرسودہ اور نام نہاد اکائیوں کے خلاف جن پر وقت، سماج، دوستی، تعلق،خلوص اور پیارکی دریدہ بدن تختیاں لگی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آتش نوائی سے احتراز کے باوجود محبتوں کی روایتی تہذیب سے عبارت ہے۔
اطہر سہارنپوری زندگی سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں،اس مشاہدہ اور تجربہ کو اپنے شعروں کے ذریعہ بڑی خوبصورتی سے واپس کردیتے ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعارحاضر ہیں ۔
اہل جہاں نے مجھ کو تماشہ سمجھ لیا
لے آئی یہ کہاں سے کہاں بے خودی مجھے
افضل نہیں ہے کوئی بھی ہم سے جہان میں
کچھ لوگ عمر بھر ہی رہے اس گمان میں
بویا تھا جو تم نے وہی تم کاٹ رہے ہو
کڑوے پہ تو میٹھا کوئی پھل ہو نہیں سکتا
گھائل اسی کو کر دیا جس پر نظر پڑی
ابروئے چشم ہی تری تیرو کمان ہے
اطہر سہارنپوری کا شعری مجموعہ ’نو بہار‘ اپنے سر ورق کے لحاظ سے بھی بیحد خوبصورت ہے۔امید ہے کہ ادبی حلقوں میںمجموعہ کو پذیرائی ملے گی۔

Thursday, April 7, 2011

Interview with Tahir Bizenjo Sb.

پاکستانی عوام بھی جمہوریت نواز ہیں: طاہر بزنجو

پاکستان ہندوستان کا نہ صرف پڑوسی ملک ہے بلکہ چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔ تاہم کچھ مفاد پرست سیاستداں ان دو نوں بھائیوں کو کبھی ملنے نہیں دیتے۔دونوں اطراف کے عوام ایک دوسرے سے مل جل کر پیار محبت سے رہنا چاہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تئیں جذباتی لگأو بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہیں۔ وہاں نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ گورنر و وفاقی وزیر۔یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کچھ اسی طرح کے سلگتے سوالات پر گزشتہ دنوں چوتھی دنیا کے سینئر نامہ نگار نوازش مہدی اور  فرمان چودھری نے پاکستان کی ’’نیشنل پارٹی‘‘ کے جنرل سکریٹری  طاہر بزنجو صاحب سے طویل گفتگو کی۔ طاہر بزنجو صاحب گزشتہ دنوں فیضؔ صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے ہندوستان کے دورے پر تھے۔
سوال:آئینی طور پر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، لیکن وہاں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے یہ راز کی بات تو نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی نشونما کا موقع نہیں دیا گیا۔60کی دہائی کے اواخر میں ہی جنرل ایوب اقتدار میں آگئے اور تقریباً10برسوں تک اقتدار پر قابض رہے۔اس کے بعدمختصر مدت کے لیے جمہوریت آئی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد پانچ سال تک جمہوری دور چلتا رہا۔اس کے بعد فوج نے پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر گیارہ سال تک ضیاء الحق صاحب اقتدار میں رہے۔ اس کے بعد جو لنگڑی لولی جمہوریت ہمارے یہاں چلتی رہی اس کو بھی یکے بعد دیگرے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ایسی صورتحال میں سیاست اس طرح نہیں چل سکتی جس طرح چلنی چاہئے۔آج اگر ہم ہندوستان کے حالات دیکھیں ، یہاں الیکشن کمیشن کی مضبوطی کو دیکھیں تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں حالات چاہے کچھ رہے ہوں لیکن جمہوری عمل کبھی ڈسٹرب نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں شروع سے ہی آمروں کا قبضہ رہا ہے، جو پاکستان کی بڑی بدنصیبی ہے،لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کے حامی نہیں ہیں بلکہ عوام دوسرے ممالک کی طرح ہی جمہوریت کے حامی ہیں۔انہوں نے کبھی بھی ڈکٹیٹروں کے آگے خود سپردگی نہیں کی۔یہ ایک اچھی بات ہے۔آج جو حالات ہیں وہ 60اور70کی دہائی سے بالکل مختلف ہیں۔آج دنیا جہان میں جمہوریت کو پذیرائی مل رہی ہے۔
سوال:آپ ہندوستان کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں؟

جواب: ہم ہندوستان فیضؔ صدی کی مناسبت سے آئے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فیض صاحب جمہوریت کے علمبردار تھے۔ اس کے لیے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔وہ ہمیشہ جمہوریت کی آواز بلند کرتے رہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان میں جمہوری عمل جتنا مضبوط ہوگا ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ جب جب پاکستان میں جمہوریت رہی ہے تب تب ہمارے تعلقات ہندوستان سے بہتر رہے ہیں۔
سوال:ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کو جمہوریت راس نہیں آتی ہے۔وہاں ڈکٹیٹر شپ ہی کامیاب ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب:ہر ایک کا اپنا ذہنی معیار ہے۔ ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے، لیکن میں یہاں پر کہوں گا کہ پاکستان اور ڈکٹیٹر شپ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔پاکستان کو جتنی بھی مشکلات برداشت کرنی پڑی ہیں اور جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس کی اصل وجہ عدم جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ ہی ہے۔پاکستان دنیا سے الگ کوئی خلامیں نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک حصہ ہے، اس لیے پاکستان کے عوام بھی اسی طرح جمہوریت کے حامی ہیں جس طرح باقی دنیا کے اور عدم جمہوریت اسی طرح پاکستا ن کے لیے نقصاندہ ہے جس طرح باقی دنیا کے لیے ہو سکتی ہے۔
سوال:پاکستان میں ایسے کون سے عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حالات ہمیشہ ہی دھماکہ خیز رہتے ہیں؟

جواب: پاکستان آج جس صورتحال سے دوچار ہے ۔ظاہر ہے یہ صورتحال راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئی ہے۔جو بڑی اور زور آور قوتیں ہوتی ہیں وہ ہر جگہ اپنے مفادات تلاش کر لیتی ہیں۔مثال کے طور پر افغانستان میں جو حالات ہیں اس کے لیے امریکہ پوری طرح ذمہ دار ہے اور اس کی اصل وجہ امریکی مفادات ہیں لیکن اس نے پاکستان کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کیوں کہ پاکستان کے ڈکٹیٹروں کے اپنے مفادات امریکہ سے وابستہ تھے۔ورنہ یہ ظلم ہرگز نہیں ہو پاتا۔دوسری طرف امریکہ ہندوستان کو پاکستا ن سے اور پاکستان کو ہندوستان سے مسلسل ڈراتا رہتا ہے۔میرا ماننا یہ ہے کہ چلئے پاکستان تو امریکہ کا ساتھ اس لیے دیتا ہے کیوں کہ اس کو امریکہ سالانہ امداد دیتا ہے لیکن ہندوستان تو اپنے آپ میں ایک بڑی طاقت ہے پھر اس نے امریکہ کے دباؤ میں آکر کیوں ہند- ایران- پاکستان گیس پائپ لائن سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ان حالات سے پاکستان اور افغانستان ہی دوچار نہیں ہیں بلکہ امریکہ خودبھی بھگت رہاہے۔وہاں کی معیشت پر اس کے بہت گہرے اثرات پڑے ہیں۔یہ جو دنیا میں دہشت گردی کا بول بالا ہے اس کی یہی وجہ ہے۔ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں،کیونکہ نفرت اور عداوت سے بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے،لیکن سیاست اپنے مفاد کی خاطر دونوں ملکوں کے عوام کو ملنے نہیں دیتی۔
سوال:ابھی آپ نے کہا کہ ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دوریاں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں؟

جواب: یقیناًاس کے لیے دونوں اطراف کے حکمراں طبقے ذمہ دارہیں۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے ، میں گزشتہ دو ہفتہ قبل لکھنؤ اور حیدرآباد گیا تھا ۔میں نے وہاں کے عوام، دانشوروں اور طلبہ سے گفتگو کی ، تو میں نے محسوس کیا کہ یہاں کے عوام کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اور اسی طرح میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام بھی ہندوستانیوں سے نفرت نہیں کرتے ہیںبلکہ محبت کرتے ہیں۔نفرت کی اصل وجہ سیاست ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب مرنے کے بعد بھی دونوں ملکوں کو ملانے کا کام کررہے ہیں کیوں کہ فیض صاحب کو جتنا پسند پاکستان میں کیا جاتاہے ہندوستان میں بھی اس سے کم انہیں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ فیض صاحب کے بارے میں اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہندوستان میں فیض صدی کی تقریبات کا آغاز صدر جمہوریہ ہند نے کیا ہے۔تو فیض صاحب دونوں ملکوں کے عوام کو ملانے کی بنیاد بن سکتے ہیں اور یہ صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔اگر ہم باہم دست و گریباں رہے تو پھر دیگر اقوام کے دباؤ میں رہیں گے۔ ہمیں علاقائی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔آج گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ کوئی بھی عمل اچھا ہو یا برا ہو ، ہم اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم ماضی کے اسباق سے سبق حاصل کریں اور خطہ کے امن و استحکام کے لیے کام کریں۔
سوال: گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کا قتل کیا پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دھبہ نہیں ہے۔ جب وہاںایک گورنر کی زندگی تک محفوظ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کس طرح اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوگا؟ پاکستانی حکومت اس صورتحال پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟

جواب: دیکھئے حکومت اپنے طور پر تو کوشش کر رہی ہے۔اس طرح کے حالات جن سے پاکستان اس وقت دو چار ہے یہ راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئے ہیں۔جن کو امریکہ آج دہشت گرد کہتا ہے، کل تو اس کے منظور نظر وہی لوگ تھے۔پاکستان کے سیاست داں پرو امریکن ہیں جبکہ وہاں کے عوام امریکہ کے مخالف ہیں۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کے حالات تشویشناک ہیں ۔سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کا قتل واقعی افسوسناک تھا۔ یہ دو افرا دکا قتل نہیں بلکہ جمہوریت اور ملک کے آئین کا قتل تھا۔ان کے جیسے لیڈر راتوں رات پیدا نہیں ہوتے بلکہ ایک لمبے عرصے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔انشاء اللہ پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوں گے۔
سوال:عوامی حلقوں میںایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہاہے کہ ایک بار پھر پاکستان کی جمہوری حکومت کاتختہ پلٹ کر فوج اقتدار میں آجائے گی،کیونکہ جمہوری حکومت قانون کے نفاذ میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔آپ کو کیا لگتا ہے؟

جواب: خدشات کی بات تو میں نہیں کروں گا ، لیکن پاکستان کی جو تاریخ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے امکان کو یکسر مستردبھی نہیں کیا جا سکتا ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بغیر امریکی حمایت کے کوئی بھی ڈکٹیٹر ابھی تک پاکستان میں نہ آیا ہے اور آئے گا بھی نہیں۔آج دنیا کے جو حالات ہیں بالخصوص اسلامی دنیا کے ایسے میں لگتا ہے کہ امریکہ کسی پاکستانی ڈکٹیٹر کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے گا،لیکن پھر بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سوال:پاکستانی پارلیمنٹ میں آپ کی پارٹی کی کیا پوزیشن ہے؟

جواب:دیکھئے گزشتہ الیکشن میں بہت ساری پارٹیوں کی طرح ہماری پارٹی نے بھی الیکشن میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ مشرف صاحب کے رہتے ہوئے الیکشن غیر جانب دار نہیں ہو سکتا۔
سوال:اس وقت دنیا بھر میں اہانت رسول کا قانون موضوع بحث بنا ہوا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سارے بے قصور اس قانون کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔اس قانون کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

جواب:ہم تو یہی کہنا چاہیں گے کہ سزا دینے کاکام عدالت کا ہے۔بجائے اس کے کہ اپنی رائے مسلط کی جائے، عدالت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔
سوال:اب عالمی کپ کرکٹ کا زمانہ ہے۔دونوں ممالک میں کرکٹ بے پناہ مقبول ہے۔کیا کرکٹ بھی دونوں ممالک کے عوام کو ملانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

جواب:دو قسم کے تماشائی ہوتے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو کھیل کو کھیل کی طرح لیتے ہیں۔دوسرے قسم کے لوگ اپنی ٹیم سے جذباتی طور پر وابستہ ہوتے ہیں۔یہ صورتحال دونوں ہی ممالک میں ہے۔ابھی تو دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات تعطل کا شکار ہیں لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ ہوتا تھا اس وقت پاکستان کی ٹیم کو ہندوستان میں اور ہندوستان کی ٹیم کو پاکستان میں بہت عزت ملتی تھی۔میرا ماننا ہے کہ سچن جیسینامور کھلاڑی کرکٹ کے ذریعہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،کیوں کہ جب کرکٹ ہوگا تو آنا جانا بھی ہوگا اور تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

Tabsara on (Iqbal aur allahabad)

نام کتاب    :    اقبال اور الہ آباد
مصنف    :    علی احمد فاطمی
ضخامت    :    240صفحات
قیمت    :    250روپے
ملنے کا پتہ    :    بادارۂ نیا سفر،مرزا غالب روڈ، الہ آباد
تبصرہ نگار    :      فرمان چودھری

علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایسے عظیم شاعرہیں جنہوں نے اپنی شاعری میںفکر اور فلسفہ پیش کیا۔ ان کے فن اور فلسفے پر اب تک ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسی سلسلے کے تحت عصر حاضر کے ممتاز ترقی پسند نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی کی تازہ تصنیف’’اقبال اور الہ آباد‘‘ سلسلۂ اقبالیات میںنیا اورخوشگواراضافہ ہے۔ موصوف نے اس تصنیف میںاپنے 11مضامین اور اقبالیات پر چند نئی کتابوں پرکئے گئے اپنے تبصروں کو یکجا کیا ہے۔’اقبال اور الہ آباد ‘ اس کتاب کا پہلا مضمون ہے اور اسی کی مناسبت سے انہوں نے اپنی کتاب کا عنوان بھی’ اقبال اور الہ آباد‘ رکھا ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ جس طرح مرزا غالب اور میر انیس کے دورۂ الہ آباد کی تفصیلات نہیں ملتیں ، اسی طرح اقبال کے دورۂ الہ آباد کی تفصیلات پربھی دھندپڑنے کاخطرہ تھا۔ اپنے دوسرے مضمون’ علامہ اقبال کا خطبۂ الہ آباد:ایک تجزیہ ‘میں موصوف نے علامہ کے اس خطبہ کا جائزہ لیاہے جو علامہ نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے ایک جلسہ میں 1930میںدیا تھا۔ اسی خطبہ کو بنیاد بناکر بعض لوگ علامہ کو نظریۂ پاکستان کا بانی بھی کہتے ہیں، لیکن فاطمی صاحب نے مذکورہ خطبہ کا عالمانہ تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ علامہ تقسیم ہند کے حامی نہیں تھے اور انہوں نے کسی الگ ملک یا ریاست کا مطالبہ بھی نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے ہندوستان کے اندر مسلم ریاست کی خواہش کی تھی۔وہ لکھتے ہیں’’علامہ اقبال نے یہ خواہش کسی علیحدگی پسندی کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے تشخص کے ساتھ ساتھ آئے دن ہونے والے ہندو مسلم کے درمیان کے واقعات کے تحفظ کے تحت بھی سوچی تھی۔وہ آئے دن کے ٹکراؤ اور بڑھتی ہوئی نفرت کا کوئی مستقل حل چاہتے تھے۔وہ مسلمان اور ہندوستان دونوں کے لیے فکر مند تھے۔ …..اقبال کو صرف جز کی نہیں کل کی فکر تھی۔صرف مسلمانوں کی نہیں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں کی فکر تھی جسے کچھ لوگ ایک خاص رنگ، مذہب اور قانون میں ڈھال دینا چاہتے تھے‘‘۔
زیر نظر کتاب کے دوسرے مضامین’ اقبال کی عصری معنویت‘ ’ اقبال کی آفاقیت پر چند باتیں‘ اور’ اقبال کی مقامیت پر چند باتیں‘ایسے مضامین ہیں جن سے قاری کے ذہن کی گرہ کھلتی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اقبال کی جتنی اہمیت بیسویں صدی میں تھی، ان کی عصری معنویت بھی اس سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ ان کی شاعری نے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا کام کیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو شاعر اسلام بھی کہا جاتا ہے ، لیکن مصنف کا اس بات پر زور دینا حق بجانب ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کو محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ ایک آفاقی شاعر ہیں اور ان کا ایک ایک مصرعہ درد انسانیت سے پر ہے۔مصنف کے دیگر مضامین ’آل احمد سرور کی اقبال شناسی‘’ محمد علی صدیقی: بحیثیت اقبال شناس‘’ اقبال کی نظم:والدہ مرحومہ کی یاد میں‘’ لینن خدا کے حضور میں:تجزیہ‘’ اقبال اور سردار کے فکری و تخلیقی رشتے‘اور’ علامہ اقبال پر فراق کا ایک مضمون‘ بھی قابل قدر ہیں۔ مصنف نے اپنے مضامین کا سلسلہ علی سردار جعفری کے ان جملوں پر ختم کیاہے’’اقبال مسلم بیداری کے شاعر تھے،  اس میں ایشیائی بیداری بھی شامل ہے۔ اقبال ہندوستان کی بیداری کے شاعر تھے، اس میں پوری تحریک آزادی شامل ہے۔ اقبال عالم انسانیت کی بیداری کے شاعر تھے، اس میں اشتراکیت کی فتح ، کارل مارکس اور لینن کے افکار کی عظمت شامل ہے۔ اقبال کی دوسری یاتیسری حیثیت ان کی پہلی حیثیت کی تردید نہیں کرتی بلکہ میرے نزدیک اس کی توثیق اور توسیع کرتی ہے کیوں کہ ہندوستان اور ایشیا کی مسلم بیداری ، عالم انسانیت کی بیداری کا ایک حصہ ہے۔ اقبال صحیح معنوں میں عالمی شاعر تھے‘‘۔
آخر میں مصنف نے’اقبال پرچند نئی کتابیں‘ کے عنوان سے اقبال:شاعر رنگیں نوا(پروفیسر عبدالحق)چوں مرگ آید(ڈاکٹر تقی عابدی)اقبال:عرفان کی آواز(پروفیسر بشیر احمد نحوی)اقبال اور سوشلزم(ڈاکٹر نذیر احمد شیخ)جہان اقبال(پروفیسر توقیر احمد خاں)اورمحافظ ملت:علامہ اقبال(ابراہیم اشک)جیسی کتابوںکا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ چند یادگار تصاویر بھی کتاب کی زینت ہیں۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ موصوف نے خود کے یا کتاب کے بارے میں کوئی مضمون یاجملہ شائع نہیں کیا ہے۔

Monday, March 21, 2011



Tabsara on Khwab-o-Khayal


نام کتاب    :    خواب و خیال(شعری مجموعہ)
مصنف    :    بی ایس جین جوہرؔ
ضخامت    :    456صفحات
قیمت    :    250روپے
ملنے کا پتہ    :  بی7-، انڈسٹریل ایسٹیٹ، پرتاپور، میرٹھ
تبصرہ نگار    :    فرمان چودھری
اردو زبان کی آبیاری میں مسلم ادباء وشعرا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ادباء و شعرانے بھی خون جگر صرف کیا ہے۔ مثال کے طور پر آنند نرائن ملاؔ، رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری،برج نارائن چکبستؔ،پنڈت دیا شنکر نسیم،ؔکنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ ، گلزارؔ دہلوی اور چندربھان خیالؔ جیسے کتنے ہی نام ہیںجنہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اردو زبان کے سیکولر کردار کوفرقہ پرستوں کے سامنے نظیر بنا کرپیش کیا۔ایسے ہی سیکولرازم کے علم بردار ایک شاعربی ایس جین جوہرؔبھی ہیں، جواردو شاعری کی زلف سنوارنے میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب موصوف کا تیسرا شعری مجموعہ ’’خواب وخیال‘‘ہے۔اس سے قبل ان کے دو شعری مجموعے ’’ترانۂ بیداری‘‘ اور ’’سازو مضراب‘‘ دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں موصوف نے اپنی غزلوں ، نظموں، قطعات اوردوہوں کو جمع کیا ہے۔ موصوف کے مجموعہ کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے پورے کے پورے مجموعے کو اردوکے ساتھ ساتھ ہندی زبان میں بھی پیش کردیاہے۔جس سے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی کے قاری بھی اس شعری مجموعے سے مستفیض ہو سکیں گے اور اردو کی حلاوت و شیرینی سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔جوہرؔ صاحب نے اپنے ہندی کے قارئین کے لیے آسانی اس طرح پیدا کی ہے کہ انہوں نے اردو کے مشکل الفاظ کا ہندی میں ترجمہ کرکے نیچے درج کردیا ہے، جس سے ان کی شاعری کو سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہوناہندی داں طبقہ کے لیے مزید آسان ہو گیا ہے۔جوہرؔ صاحب کا ماننا ہے کہ ہندی اور اردو دونوں ایک ہی زبان ہیں۔ دونوں میں صرف رسم الخط کا فرق ہے۔اس لیے شمالی ہند میں جو ہندی اور اردو کا تنازعہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ، یہ اس کا صحیح جواب ہے۔
بی ایس جین جوہر کی غزلوں، نظموں، قطعات اور دوہوں میں سلاست، روانی اور شگفتگی ہے۔ان کی سادہ و سلیس زبان سیدھے قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ موصوف نے بڑی خوش اسلوبی سے ہندی الفاظ کابھی استعمال کیاہے۔ان کی شاعری سے انسان دوستی، بھائی چارہ اور رواداری کا پیغام ملتا ہے۔ بی ایس جین جوہرؔ کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد حسین خاں کہتے ہیںکہ ’’ان کا کلام کلام ِ ناموزوں ، دو لخت اشعار، عیب قافیہ، سقم ِ اجتماع ِ ردیفین ، شتر گربہ، شکست ناروا، ایطائے جلی و خفی، عجز کلام اور غلط تراکیب و محاورات کی خامیوں سے پاک و صاف ہے‘‘۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
انقلاب آتے ہیں دنیا میں سونامی بن کر
دل میں طوفان اٹھا کرتے ہیںساگر کی طرح
گھر میں رونق آگئی سالے ہوئے مہمان
چولھے پر چندن چڑھا، بننے لگے پکوان
مری میت میں تو آنا نہ آنا جیسی مرضی ہو
ترے خوابوں، خیالوں میں توآنا چاہتا ہوں میں
جوہر صاحب کی غزلوں میں نظموں کا مزا آتا ہے ، کیوں کہ ان کی غزلوں کے اشعار باہم مربوط ہیں۔ اسی لیے ان کی غزلوں کو عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار سے اسے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
میں تمہارے بغیر جیتا ہوں
زہر غم روز روز پیتا ہوں
پہلے خوابوں کے جال بنتا تھا
اب پھٹی اوڑھنی کو سیتا ہوں
تم کہا کرتی تھیں کہ رام ہو تم
اور میں بھی تمہاری سیتا ہوں
امید کی جاسکتی ہے کہ غزلوں، نظموں ،قطعات اور دوہوں سے مزین بی ایس جین جوہر کا یہ شعری مجموعہ عوام و خواص میںیکساں مقبول ہوگا۔

Saturday, March 12, 2011

Tabsara on (chaand mera hei)

نام کتاب    :چاند میرا ہے(افسانوی مجموعہ)
مصنف    :    غزالہ قمر اعجاز
ضخامت    :    182صفحات
قیمت    :    200روپے
ملنے کا پتہ    :    بی132-ایم آئی جی فلیٹس،راجوری گارڈن،نئی دہلی
تبصرہ نگار    :   فرمان چودھری

زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادبی سفر میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس کرا رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نمائندگی جتنی ہونی چاہئے اتنی نہیں ہے۔ زیر نظرکتاب ایک خاتون افسانہ نگار غزالہ قمر اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’چاند میرا ہے‘‘نامی اس مجموعے میں غزالہ قمر اعجاز نے اپنے 19افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میںجب کہ انسانی زندگی نفسیاتی پیچیدگی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے اور تمام انسانی رشتے ناتے بوجھ بن گئے ہیں، قمر غزالہ اعجاز نے اپنے افسانوں میں اس درد کو نہایت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے مجموعے کا پہلا افسانہ ’’مقبرہ‘‘اس کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں قمر غزالہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح گھر کے بزرگ اپنے ہی گھر میں خود کو تنہا اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔مثال کے طور پر افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے’’اس وقت بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد سمعیہ دوبارہ سو رہی ہوں گی اور ان کے فرماں بردار شوہر یعنی ہمارے برخوردار اپنی چائے بنانے کے بعد اب اخبار کے مطالعے میں مصروف ہوں گے…..اور میرے وقت سے پہلے پہنچنے پر وہ اخبار مجھے دے کر لان میں لگے پودوں کو پانی دینا شروع کر دیں گے۔گھڑی اس وقت جیسے رک سی جاتی ہے۔سمعیہ ساڑھے آٹھ بجے اٹھیں گی۔ناشتہ میز پر رکھ کر مجھے اس انداز سے بلائیں گی جیسے کہہ رہی ہوں ’نٹھلو کھانے کے سوا تمہارا کام ہی کیاہے‘‘۔
قمر غزالہ نے اپنے افسانے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں پیش کئے ہیں لیکن انہوں نے افسانے کے فن کو کہیں نظر انداز نہیں کیا ہے۔اس لیے ان کا قاری کہیں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ہے۔اس مجموعے کے موضوعات گرچہ روایتی ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہیں۔ ہمارے بیشتر ادیب آج بھی روایت کے خول میں ہی لپٹے ہوئے ہیں۔اس خول سے باہر وہ تب آتے ہیں جب یوروپ کا کوئی ادیب ان سے باہر نکلنے کے لیے کہتا ہے،یا یوں کہیں کہ جگاتا ہے۔بہر حال موصوفہ نے اچھی کوشش کی ہے اور روایتی موضوعات کو انفرادیت کا جامہ پہنایا ہے۔
ان کے بقول افسانہ ایک مکمل تجربہ ہے، جو کبھی ایک لمحے پر تو کبھی پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے۔اپنے اسی تجربے کو انہوں نے اپنے افسانہ ’’زلزلہ آگیا ہے‘‘ میں بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے اور سماج کے فرقہ پرست چہرے پر زبردست چوٹ کی ہے۔’’بند کمرہ‘‘ میں غزالہ قمر نے آفس کلچر اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچا ہے۔’’کھوکھلے رشتے‘‘ میں انہوں نے بڑے شہر میں رہ رہے اس جوڑے کی زندگی سے قارئین کو روبرو کرایا ہے جو اپنی مصروفیت میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے ایک دوسرے کا خیال ہی نہیں رہتا ، لیکن آخر میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو تباہ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ یہ افسانہ ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا انسان صرف کام کرنے کی ہی مشین بن گیا ہے ؟کیا گلوبلائزیشن نے اس کے اندر کے جذبات و احساسات کو بالکل ہی ختم کردیا ہے؟
غزالہ قمر کے افسانے بھی اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اپنیدیگر افسانوں ایک اور سریتا، درار، اپنا انصاف، جیک پاٹ، گھروندا، آئینہ چپ ہے، اسپرنگ، چاند میرا ہے، یکا تنہا، آخری تلاش، دھند، تم کون، ہار، کسک اورسانپ میں بھی انہوں نے اپنے فن کا بخوبی استعمال کیا ہے۔اپنے اس مجموعے میں انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے،جن سے انسانی زندگی شب و روزدوچار ہوتی ہے۔غزالہ قمر نے اپنے افسانوں میں جس طرح انگریزی الفاظ کا جگہ جگہ استعمال کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ انگریزی الفاظ اردو کے ساتھ پوری طرح گھل مل گئے ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ بہترین اور عمدہ سر ورق کے ساتھ غزالہ قمر اعجاز کا یہ افسانویمجموعہ اردو داں حلقے کو ضرور پسند آئے گا۔

Friday, March 4, 2011

Tabsara on subah ki dehleez

نام کتاب    :    صبح کی دہلیز(غزلیہ مجموعہ)
مصنف    :    ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت    :    116صفحات
قیمت    :    100روپے
ملنے کا پتہ    :    ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار    :    فرمان چودھری

اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔

ایک گھر بے درودیوار کا کرکے تعمیر
میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کو اپنا نصب العین بتانے والے ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے نزدیک شاعر کا مقصد خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا ہے ۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے زیر نظر مجموعہ سے قبل دو شعری مجموعے’ احساس کی دھوپ‘ 1983میں اور’ پلکوں پہ خواب‘2003میں جبکہ ایک نثری تصنیف’ قومی ایکتا کے نام ‘ 1983میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ ادبی، سماجی اور تعلیمی انجمنوں میں ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔اسی سرگرمی سے وقت نکال کر وہ اپنے احساسات وجذبات کو شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔
ان کے وعدوں کی ہے ،حقیقت کیا
جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
حالانکہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ کسی خاص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ،پھر بھی ان کی شاعری ترقی پسند نظریات کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔بقول ڈاکٹر علی احمد فاطمی’’ذکی طارق کی شاعری کا بنیادی لب و لہجہ ،فکر اور اسلوب دونوں ہی اعتبار سے ترقی پسند اقدار اور افکار سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن یہ ترقی پسندی روایتی ہر گز نہیں ہے بلکہ آج کی زندگی سے براہ راست وابستگی رکھتی ہے۔اپنے انداز میں اپنے لب و لہجہ میں آج کی حساس اور پر وقار شاعری جو بھی ایمان و ایقان ،مزاج و مذاق ،کردار و رفتار کے تقاضے  رکھتی ہے۔ذکی طارق کی شاعری ان مطالبات کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

Monday, February 28, 2011


Tabsara on (Seerat Rasool e Akram,saws)

نام کتاب    :    سیرت رسول اکرمؐ
مصنف    :    محمدامام الدین کشی نگری
ضخامت    :    316صفحات
ملنے کا پتہ    :رضوی کتاب گھر،اردو مارکیٹ،مٹیا محل،دہلی6-

تبصرہ نگار    :      فرمان چودھری
یوں تو بے شمار لوگوں نے آپؐ کی سیرت پاک پر کتابیں لکھیں اور سب کا اپنا ایک منفرد انداز رہا ۔ہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تمام لکھنے والوں کو قارئین بھی ملے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیرت پر کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس لیے جب بھی کوئی اس عنوان کے تحت لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینی طور پر وہ اپنے میدان کا ماہر ہوتا ہے۔یعنی لکھنے والا معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے، چونکہ کتاب میں پیغمبر اسلام کی حیات و خدمات کو قلم بند کیا جاتا ہے، لہذا سیرت نگار کو قارئین کا ایک حلقہ ملنا یقینی ہو جاتا ہے۔جناب محمد امام الدین کشی نگری بھی انہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کی جماعت کے ایک فرد ہیں۔ انھوں نے سیرت نگاری پر ’’سیرت رسول اکرمؐ‘‘ نامی کتاب تصنیف دے کرکے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب منفرد نوعیت کی حامل ہے۔موصوف کا انداز بیان تو دلکش ہے ہی ساتھ ہی عمیق تحقیق کی جھلکیاں ان کی تحقیقی کاوشوں کی غمازی کرتی ہیں۔ان کی یہ کاوش سیرت نگاری کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اس میںجناب محمد امام الدین نے ظہور اسلام سے پہلے عرب کی صورت حال سے لیکر آپ ؐکے وصال تک کے حالات کامیابی کے ساتھ قلمبند کئے ہیں۔اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اسے ایک ہندوستانی نے مدینہ منورہ میں تصنیف کیا ہے۔مصنف نے اس کتاب کو تین مرکزی عنوانات ’ رسول اکرمؐ  کی مکی زندگی،مدنی زندگی اور شخصی زندگی کے تحت قلم بند کیا ہے۔موصوف نے نہ صرف ہر  واقعات کو الگ الگ عنوان کے تحت سجایا ہے بلکہ واقعہ کے مقام و وقت،ماہ و سال،سن ہجری اور عیسوی کا بیان بھی کردیا ہے۔ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف نے باضابطہ طور پر عا  لمیت یا مولویت کی ڈگری نہیں لی ہے(وہ ایم اے بی ایڈ ہیں اور پیشے کے لحاظ سے کمپیوٹر آپریٹر ہیں) بلکہ عشق رسول سے سرشار ہوکر یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔کتاب کو مصنف نے بہت سلیقے کے ساتھ مرتب کیا ہے اور ان خوش نصیبوں میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جنہوں نے نبی کریم ؐ  کی تاریخی زندگی اور انقلابی خدمات پر قلم اٹھایا اور سیرت رسولؐ پر کوئی کتاب تالیف کی۔
کتاب کے ابتدا اور اخیر میں حمد و نعت کو بھی مصنف نے شامل کیاہے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے عاشقان رسولؐ میں اپنا نام درج کراکر سیرت کے باب میں ایک بیش قیمت اضافہ کیا ہے۔ جسے یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ آج سے سوا چودہ سو سال قبل سرزمین عرب میں آنکھیں کھولنے والے آخری نبی حضرت محمدؐ کی سیرت پاک کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کا کام آپؐ کے عہد مبارک میں ہی شروع ہو چکا تھا۔جو آہستہ آہستہ ایک مستقل فن کی شکل اختیار کرگیا۔صحابۂ کرام ؓجس طرح احادیث رسولؐ  کو جمع کر رہے تھے،اسی طرح حیات رسولؐ  کی ایک ایک ادا،ایک ایک قول و فعل اور طریقۂ زندگی کے ایک ایک عمل کو بھی انتہائی عقیدت کے ساتھ جمع کر رہے تھے۔سیرت نگاری کا یہ کام اس زمانے سے تا حال جاری و ساری ہے۔اس کام میں کسی بھی زمانے میں کوئی جمود نہیں آیا۔سیرت نگاری کا یہ قافلہ یوں ہی رواں دواں ہے اور اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے ۔ یہ ایسا بحر بیکراں ہے جسے عبور کرنے میں بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ایک مذہبی مفکر کے بقول ’’ آسمان کے چاندتاروں کوتوڑ کر اپنے دامن میں رکھنا جس طرح دشوار مسئلہ ہے اسی طرح سیرت رسول ؐکے ہر گوشے کو سمیٹ لینا بھی نہایت دشوار ہے‘‘۔لیکن اس کے باوجود آج ہر زبان میں سیرت کی چھوٹی بڑی کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ دنیا میںموجود ہے کہ کسی دوسرے عظیم ترین بادشاہ یا حکمراں کی حیات و خدمات پر اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں۔

Tabsara on Dehleez (fictions)

نام کتاب    :    دہلیز (افسانوی مجموعہ)
مصنف    :    سہیل جامعی
قیمت    :    100روپے
ملنے کا پتہ    :    اردو بازار ،دربھنگہ
تبصرہ نگار:  فرمان چودھری
افسانہ  اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو زندگی کے بے حد قریب مانی جاتی ہے۔شاید اسی لیے اردو میں افسانہ کی ابتدا سے لے کر آج تک اس صنف کی مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔گرچہ افسانہ مغربی ادب سے اردو میں آیا،پھر بھی اردو میں اگر غزل کو مقبولیت حاصل ہے توافسانوں کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہےاورافسانوں کی تخلیق کا سلسلہ منشی پریم چند سے لے کرتا حال جاری ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھایا ہے سہیل جامعی کے افسانوی مجموعے ’دہلیز‘ نے۔
سہیل جامعی کے افسانوی مجموعے ’دہلیز‘ کے یوں تو سبھی افسانے بہت اچھے ہیں لیکن افسانہ ’دہلیز‘ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔اس افسانے میں سہیل جامعی نے انسانی نفسانی ضروریات اور اخلاقی قدروں کی بہترین تصویر کشی کی ہے۔سہیل جامعی اپنے اس افسانہ کے ذریعہ سماج کو ایک مثبت پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں۔مثال کے طور پر افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔’’پھر اوشا کو لگا کہ کسی دن اس کی طرف دیکھ کر بھی لوگ اسی طرح کانا پھوسی کریں گے۔ارے کون نہیں جانتا اسے۔۔۔۔۔۔۔؟تو کیا فرق رہ جائے گا اس لڑکی میں اور مجھ میں۔اتنا سوچتے ہی اوشا اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کنڈکٹر سے بولی۔پلیز ! مجھے یہیں اتار دیں۔۔۔۔‘‘
سہیل جامعی کے اس مجموعے میں کچھ مختصر افسانے بھی ہیں۔جیسے اتحاد،سلسلہ، سچائی، سونے کی چڑیااور وجود وغیرہ وغیرہ۔سچائی ا ن کا مختصر ترین افسانہ ہے،جسے بہت ہی بہتر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔انتہائی مختصر ہونے کے باوجود یہ افسانہ قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔اسی طرح ان کا ایک اور افسانہ ’سونے کی چڑیا‘ بھی قاری کے دل پر زبردست چوٹ کرتا ہے۔’فرق‘ افسانہ ہمیں شہر کی بھاگ دوڑ بھری زندگی سے روبرو کراتاہے کہ کس طرح آج ہم اپنے پڑوسی تک سے نا آشنا ہیں۔’دہلیز‘ کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سہیل جامعی کو انسانی نفسیات پر گہری پکڑہے۔جس کا فائدہ وہ اپنے افسانوںکو حقیقت سے قریب تر کرنے میں اٹھاتے  ہیں۔
امید کی جانی چاہئے کہ سہیل جامعی کا تخلیقی سفر یوں ہی جاری رہے گا۔اور وہ اپنے مصروف ترین وقت میں سے کچھ لمحے چراکر اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں گے۔ 24 افسانوں پر مشتمل سہیل جامعی کے افسانو ں کا مجموعہ’ دہلیز‘ گرچہ ایک مختصر مجموعہ ہے ،لیکن اختصار کے باوجود اپنے قاری کو زندگی کے تمام مراحل سے روشناس کرانے میں کامیاب ہے۔بہار کے ایک تاریخی شہردربھنگہ کے خوشحال اور قدامت پسند گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے سہیل جامعی کی تعلیم کا سلسلہ جب دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میںشروع ہوا تو پھر انہوں نے سارے تعلیمی مراحل یہیں سے طے کیے۔ دو شہروں کی تہذیبوں کا حسین امتزاج نہ صرف ان کی شخصیت میں جلوہ گر ہے بلکہ ان کے افسانے بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔سہیل جامعی گرچہ پیشے سے تاجر ہیں لیکن لکھنے پڑھنے کا شوق ،ان سے اردو ادب کی خدمت کے لیے کچھ  وقت نکال ہی لیتا ہے۔اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’زندگی کی تمام مصروفیات کے با وجود اپنی تجارتی زندگی کے درمیان سے کچھ لمحے چرااپنی خواہشوں کی تکمیل کر کچھ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ زیر نظر کتاب ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔اس سے قبل ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’’لکیر‘‘شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔


شیئر بازار ۔تابناک مستقبل کا ضامن

فرمان چودھری
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں ہماری نئی نسل خصوصاً مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاںلے کر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں تودوسری جانب نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو مالی وسائل کی کمی یا خاندان کی پرورش کا بار گراں اپنے کندھوں پر آجانے کی وجہ سے ترک تعلیم پر مجبور ہوگیا اور انہیں کسب معاش کے لئے نکلنا پڑا۔ہم نے ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے ’’نوجوانوں کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک کالم شروع کیا ہے،تاکہ وہ تھوڑی اور محنت کرکے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ہم اپنے ہرشمارہ میں قلیل مدتی پروفیشنل کورسز کے بارے میں بات کررہے ہیں اور جاب کے متلاشی اور کریئرسازی کے لئے سرگرداںنوجوانوں کوکورس، اس کی افادیت، مطلوبہ تعلیمی لیاقت اور متعلقہ تعلیمی وتربیتی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کریںگے۔آج ہم جس کورس کے تعلق سے بات کرنے جارہے ہیں،اس کا نام ہے’شیئر بازار‘
عالم کاری کے اس دور میں روزگار کے متعدد نئے شعبے وجود میں آئے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس میں آپ گھر بیٹھے تجارت کرسکتے ہیں اور اچھی خاصی دولت کما سکتے ہیں۔ اس ے علاوہ آپ ایکسپرٹ بن کر دوسروں کی رہنمائی بھی کرسکتے ہیں، جس سے آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کیا ہے:
اسٹاک ایکسچینج وہ بازار ہے جہاں بروکرس عام لوگوں اور اداروں کے شیئر خریدتے اور بیچتے ہیں۔ ہندوستان کا شیئر بازار اس وقت شاندار نتائج دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سرمایہ کار بلکہ کریئر کی تلاش میں سرگرداں نوجوان بھی شیئر بازار کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنا رہے ہیں۔ ابھی چند دہائیوں قبل تک اس شعبہ میں صرف ممبئی، کولکاتا اور دہلی کے شیئر بازاروں کے ہی تذکرے ہوتے تھے اور آج حال یہ ہے کہ ملک کے ہر بڑے شہر میں شیئر بازار ہے اور ان ہی بازاروں میں اچھی خاصی ٹریڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیئر بازار کا مستقبل تابناک ہے۔
شیئر بازار میں کریئر:
شیئر بازار میں آپ اپنے کریئر کو کئی طرح سے بناسکتے ہیں۔ مثلاً ماہر معاشیات، اکاؤنٹینٹ، معاشی تجزیہ کار، انویسٹ انالسٹ، کیپٹل مارکیٹ انالسٹ، فیوچر پلانرس، سیکورٹی انالسٹ اور ایکوٹی انالسٹ وغیرہ۔
شیئر بازار میں سب سے اہم شخص اسٹاک بروکر ہوتا ہے۔ اسٹاک بروکر کمیشن لے کر کسی شخص یا ادارے کے لیے شیئر خریدنے کا کام کرتا ہے۔ عام زبان میں اسے شیئر دلال بھی کہتے ہیں، چونکہ شیئر بازار کی مشکلات کو سمجھنا، اس کی پیش گوئی کرنا اور اس پیش گوئی کی بنیاد پر نفع ونقصان کو ذہن میں رکھ کر خرید و فروخت کرنا آسان کام نہیں ہے، اس لیے شیئر بازار میں ان دلالوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جو دلال شیئربازار میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور لگن کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیتے ہیں ان کی مارکیٹ میں زیادہ مانگ ہوتی ہے۔ چونکہ یہ کام صلاحیت کے ساتھ مہارت بھی چاہتا ہے، اس لیے اچھا بروکر بننے کے لیے دلچسپی اور لگن کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی ذہانت کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
کچھ اسٹاک بروکر نجی گاہکوں کے لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ تو کچھ مختلف اداروں سے وابستہ ہو کر ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسے شیئر بروکر جو اداروں کے لیے کام کرتے ہیں، انہیں سیکورٹی ٹریڈر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ بروکر مالی اداروں کے لیے کنسلٹنسی کا بھی کام کرتے ہیں۔ اداروں کے لیے سیکورٹی خریدنے اور فروخت کرنے والے اسٹاک بروکر کمیشن کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ یہی طریقہ نجی گاہکوں کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو اسٹاک بروکر کسی مالی ادارے کے لیے مشیر کا کام کرتا ہے، اسے ایک متعین تنخواہ ملتی ہے۔ جہاں تک کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ آمدنی کا سوال ہے تو کسی بھی شیئر بروکر کی کم سے کم آمدنی10ہزار روپے فی ماہ سے زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
اسٹاک بروکر کی طرح سیکورٹی انالسٹ جیسے ماہرین کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کیوںکہ شیئر بازار ہمیشہ ہی منافع کا کار و بار نہیں ہے، اس میں کئی بار نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ سیکورٹی تجزیہ کار دراصل اس رسک فیکٹر کا تجزیہ کرتا ہے، اس لیے اس کی گائڈ لائن پر ہونے والی سرمایہ کاری میں نقصان کے خطرات کم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف کمپنیاں جو الگ الگ شعبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، سیکورٹی تجزیہ کاروں کی خدمات لیتی ہیں۔ یہ سیکورٹی تجزیہ کار اپنے نتیجے نکالنے کے لیے بازار کو اپنی کسوٹی میں الگ الگ طریقے سے کستے ہیں اور بازار میں نفع ونقصان کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ ایک عام سیکورٹی انالسٹ کی آمدنی 10سے 15ہزار روپے فی ماہ کم سے کم ہوتی ہے۔ جب کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی کی کوئی حد نہیں ہے، جو سیکورٹی انالسٹ جتنا زیادہ صحیح تجزیہ کرتا ہے، اس کی مارکیٹ ویلیو اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
شیئر بازار کا ایک اور اہم شخص ایکوٹی انالسٹ ہے۔ یہ ہندوستانی کیپٹل مارکیٹ کی ترقی اور بڑھتی مقابلہ آرائی کے سبب پیدا ہوا نیا پروفیشنل ہے۔ ایکوٹی تجزیہ کار کسی شخص یا ادارے کو سرمایہ کاری کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت جب بازار کی طاقتیں اثردار کردار ادا کر رہی ہوں، یعنی جب بازار بناؤٹی تیزی یا مندی کا شکار ہو، اس وقت ایکوٹی انالسٹ ہی سرمایہ کار کو بتاتے ہیں کہ انہیں سرمایہ کاری کرنی چاہیے یا نہیں۔
شیئر بازار کے دیگر اہم انسانی وسائل میں انویسٹمنٹ مینجمنٹ، سیکورٹی ریپرزینٹیٹو اور اکاؤنٹ ایگزیکٹیو بھی ہیں۔ ان سب کے لیے بھی شیئر بازار کی سمجھ ہونا ضروری ہے۔
کیسے بنیں اسٹاک بروکر:
اسٹاک ایکسچینج کا ممبر بننے کے لیے آپ کو ایک تحریری امتحان اسٹاک ایکسچینج میں سیکورٹی کے طور پر کچھ رقم جمع کرانا ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسٹاک بروکرنگ کمپنی کے ایجنٹ یا ڈیلر کے طور پر کام کر کے تجربہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ بروکنگ کرنے والی بڑی کمپنیاں فائنانس میں مہارت رکھنے والے ایم بی اے ڈگری والوں، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس اور چارٹرڈ فائنانس انالسٹ کو اولیت دیتی ہیں۔ ایک اسٹاک بروکر کے خاص کاموں میںشیئر بازار کی شرائط کو آسان کرنا اور اپنے گاہک کے لیے تجارتی سرگرمیاں انجام دینا وغیرہ ہیں۔
اسٹاک بروکر ایک ڈیلر اور ایک مشیر کے طور پر کام کرسکتا ہے، جو اپنے علم کی بنیاد پر گاہکوں کو نئے شیئروں کے مستقبل کے بارے میں پوری معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ بازار کے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور اس تجزیہ کی بنیاد پر اپنے گاہک کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ عام طور سے پروفیشنل اہلیت کے ساتھ ایم بی اے اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگری والا کوئی بھی امیدوار اس شعبہ میں اپنا کریئر بناسکتا ہے۔ اس شعبہ میں آمدنی کے لامحدود موا قع ہیں۔
اسٹاک بروکنگ کے ادارے:
اسٹاک ایکسچینج بھون، فورٹ، ممبئی
بی/303وینٹیکس وکاس، اندھیری، ممبئی
نئی دہلی
ناسک-422005 1-     ممبئی اسٹاک ایکسچینج ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ 2-     انسٹی ٹیوٹ آف فائنانشیل اینڈ انویسٹمنٹ پلاننگ 3-     انسٹی ٹیوٹ آف کمپنی سکریٹریز آف انڈیا 4-     انسٹی ٹیوٹ آف کیپٹل مارکیٹ ڈیولپمنٹ 1965آریہ سماج روڈ، قرول باغ، نئی دہلی-5 5-     آل انڈیا سینٹر فار کیپٹل مارکیٹ اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ

ہوٹل مینجمنٹ میں تابناک کریئر

فرمان چودھری
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں ہماری نئی نسل خصوصاً مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاںلے کر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں تودوسری جانب نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو مالی وسائل کی کمی یا خاندان کی پرورش کا بار گراں اپنے کندھوں پر آجانے کی وجہ سے ترک تعلیم پر مجبور ہوگیا اور انہیں کسب معاش کے لئے نکلنا پڑا۔ہم نے ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے ’’نوجوانوں کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک کالم شروع کیا ہے،تاکہ وہ تھوڑی اور محنت کرکے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ہم اپنے ہرشمارہ میں قلیل مدتی پروفیشنل کورسز کے بارے میں بات کررہے ہیں اور جاب کے متلاشی اور کریئرسازی کے لئے سرگرداںنوجوانوں کوکورس، اس کی افادیت، مطلوبہ تعلیمی لیاقت اور متعلقہ تعلیمی وتربیتی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کریںگے۔آج ہم جس کورس کے تعلق سے بات کرنے جارہے ہیں،اس کا نام ہے ’’ہوٹل مینجمنٹ‘‘
کورس کا نام:ہوٹل مینجمنٹ
کورس کی اہمیت و افادیت:
ہرایک تجارت میں نشیب و فرازآتے رہتے ہیں۔لیکن ہوٹل تجارت ایک ایسی تجارت ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔پوری دنیا میں تیزی سے پنپتی پانچ ستارا ہوٹل تہذیب نے اس شعبہ میں کریئر کے لامحدود مواقع فراہم کئے ہیں۔ہوٹلوں کو چلانے کے لئے باقاعدہ تربیت یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی مانگ اس شعبہ میں ہے۔اس لئے ہوٹل مینجمنٹ میں باقاعدہ تربیت حاصل کر کے آپ بھی اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔
آج کی مادی دنیا میں خوشحال لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ کہیں نہ کہیں ہوٹلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے منافع اور کاروبارو تجارت کے سبب ہوٹلوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ہوٹل دورحاضر کی تہذیب کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ کسی طرح کی پارٹی کا انعقاد ہو یا کمپنی سے متعلق میٹنگ ، صارفین سے متعلق سیمنار ہو یا نئے پروڈکٹ کی لانچنگ یا پھر پریس کانفرنس کا موقع کیوں نہ ہو۔ ان مواقع پر ہوٹل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تجارت کے سبب سیاحت کے شعبہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سیاحت کے فروغ نے ہوٹل کے شعبہ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
تعلیم یافتہ او رباصلاحیت نوجوانوں کی دلچسپی تیزی کے ساتھ ہوٹل مینجمنٹ سے متعلق کورسیز کے تئیں بڑھی ہے۔انگریزی اور دیگر مقامی زبان جاننے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں، جواپنی شخصیت میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں، کے لئے یہ میدان امکانات سے روشن ہے۔ تبادلۂ خیالات کی صلاحیت ، دوسروں کو متاثر کرنے کی خوبی اور استقبال کا جذبہ آپ کو اس میدان میں کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کا موقع نہیں دے گا۔کیونکہ ہوٹل تجارت پوری طرح مہمان نوازی اور خدمت کے جذبے سے سرشار شعبہ ہے۔
محنتی، خوش مزاج، ملنسار، صحت مند، خوبصورت اور باذوق نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے ہوٹل مینجمنٹ ایک بہترین کریئر ہے۔ ون اسٹار سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹل اور ٹورسٹ ہوٹلوں میں مندرجہ بالا نوجوان تربیت کے بعد اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ یہی نہیں تربیت یافتہ نوجوانوں کے لئے فلوئنگ ہوٹل، شینگ کمپنی ، ایئر پورٹ ہوٹل وغیرہ میں چیف رسپشن آفیسر ،فوڈ پروڈکشن، ہائوس کیپنگ، بیوٹریشین، اکائونٹنٹ ، گائڈ ،ویٹر وغیرہ کے عہدوں پر پہنچنے کے مواقع انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس شعبہ میں آپ کے لئے تعلقات استوار کرنے کے بھی بہتر مواقع ہیں۔اہم لوگوں سے رابطہ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختلف میدانوں کے کامیاب لوگوں سے ملنے کے بعد کافی کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
ہوٹل تجارت کی بات وہاں بننے والے لذیذ کھانوں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔کنفیکشنری اور کھانے کا شعبہ ہوٹل کا ایک اہم حصہ ہے۔اس شعبہ میں معمولی اہلیت اور بغیر تجربے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔بڑے ہوٹلوں میں فوڈ کرافٹ انسٹی ٹیوٹ کے تربیت یافتہ لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ملک میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو اس سے متعلق تربیت کورس چلا رہے ہیں۔اس تجارت میں شیف دی پارٹی عہدوں کے لئے بھی قابل، تجربہ کار اور ادھیڑ لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔جن لوگوں کے پاس ہوٹل مینجمنٹ  میں تین سالہ ڈپلومہ اور کم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہوتا ہے، انہیں ان عہدوں کے لئے ترجیح دی جاتی ہے۔
حکومت ہند کی وزارت برائے سیاحت کی دیکھ ریکھ میں نیشنل کائونسل آف ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنالوجی ملک بھر میں پھیلے اپنے 20اداروں کی مدد سے ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس چلا رہا ہے۔ اس میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے لئے ایک کمبائنڈ انٹرینس ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے میں یہ امتحان منعقد کیا جاتا ہے۔22سال سے کم عمر کے دسویں بارہویں سائنس مضامین کے ساتھ پاس نوجوان لڑکے لڑکیاں اس امتحان میں شرکت کی اہلیت رکھتے ہیں۔ڈھائی گھنٹے کی مدت کے اس امتحان میں معروضی سوالوں کے جواب دینے ہوتے ہیں۔تحریری امتحان پاس کرنے والے کامیاب امیدواروں کو انٹر ویو کے لئے بلایا جاتا ہے۔ بعد میں میرٹ کی بنیاد پر ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ منتخب امیدواروں کو تین سال کی مدت میں کل 36مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ عملی تربیت کے لئے الگ سے کلاسیں لی جاتی ہیں۔ ہوٹل مینجمنٹ کے شعبہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد ادارہ حاملین اسناد کو مختلف ہوٹلوں میں عملی تربیت کے لئے بھیجتا ہے۔جہاں ٹریننگ کے دوران انہیں ڈیڑھ ہزار روپے سے تین ہزار روپے تک وظیفہ ملتا ہے۔
کورسیز:
ہوٹل مینجمنٹ کے اداروں میں مختلف کورس دستیاب ہوتے ہیں۔جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ڈپلومہ ان ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنالوجی (تین سال)۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان اکوموڈیشن آپریشن مینجمنٹ (ہائوس کیپنگ ، فرنٹ آفس)ڈیڑھ سال۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس ان ڈائٹیٹکس اینڈ ہاسپیٹل فوڈ سروس (ایک سال)۔
سرٹیفکیٹ کورس ان ہوٹل کیٹرنگ مینجمنٹ(21ہفتے، سال میں 2بیچ)۔
کرافٹ مین شپ کورس ان فوڈ اینڈ بیوریج سروس(6ماہ، سال میں دو بیچ)۔
یہی نہیں خواتین کے لئے کوکری، بیکری اور کنفیکشنری کے 13ہفتوں کے (ہفتے میں2بار کلاس) کورس بھی کرائے جاتے ہیں۔ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس بھی کرائے جاتے ہیں،جن کی فیس کورس کے مطابق ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ گریجویٹ اسکول آف ہوٹل ایڈمنسٹریشن، دہلی ویو ہوٹل(ویلکم گروپ) منی پال بھی قومی سطح پر تحریری اور زبانی امتحان منعقد کر کے امیدواروں کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ ادارہ بھی ہوٹل مینجمنٹ کے سبھی نقطوں کی باقاعدہ جانکاری  دستیاب کراتا ہے۔ اس ادارہ نے ایک پلیسمنٹ سیل بھی کھولی ہوئی ہے۔ جہاں سے ملک اور بیرون ملک نوکری مل سکتی ہے۔ یہ ادارہ اعلیٰ تربیت کے لئے اپنے طلبا کو امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھیجتا ہے۔
ایک دیگر ادارہ اوبرائے اسکول آف ہوٹل مینجمنٹ بھی ہوٹل مینجمنٹ کے معاملہ میں باوقار ادارہ مانا جاتا ہے۔ یہ ادارہ انٹر نیشنل ہوٹل ایسو سی ایشن ان پیرس سے منظور شدہ ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ہوٹلوں کے بڑے عہدیداراس ادارہ کے گریجویٹ ہیں۔ یہاں سے تین سالہ ڈپلومہ کرنے کے بعد تربیت یافتہ نوجوان معاون منیجر کے طور پر نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں سے تین سالہ ڈپلومہ کے بعد پی جی ڈپلومہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہوٹل انڈسٹری میں لڑکیوں کے لئے بھی کافی مواقع ہیں۔ ہوسٹیس عہدوں کے لئے عام طور پر 22سے 26سال کی عمر کی لڑکیوں کو لیا جاتا ہے۔فراٹے دارانگریزی، متعلقہ شعبہ کا تجربہ، غیر ملکی زبان کا علم اور لوگوں کو ڈیل کرنے کا سلیقہ اس کے لئے ضروری اہلیت ہے۔
مجموعی طورپر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہوٹل مینجمنٹ کے شعبہ میں قدم رکھ کر آج کے نوجوان اپنے روشن اور تابناک مستقبل کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں۔
اہم ادارے:
n    اوبرائے سینٹر، دہلی
7، شام ناتھ مارگ، نئی دہلی110054-
n    آئی ایچ ایم،ممبئی
ویر سوارکر مارگ، دادر(ڈبلیو آر)، ممبئی400028-
n    ڈبلیو جی ایس ایچ اے، منی پال
ویلی ویو، منی پال576119-
n    آئی ایچ ایم، دہلی
نیشنل کونسل فار ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنا لوجی، پوسا، نئی دہلی
n    آئی ایچ ایم، اورنگ آباد
ڈاکٹر رفیع ذکریہ کیمپس، روزہ باغ، اورنگ آدباد431001-
n    آئی ایچ ایم بنگلور
ایس جے پولی ٹیکنک کیمپس، سیشادری روڈ، بنگلور560001