Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Saturday, April 16, 2011

Tabsara on Ameer Khusro (musical opera)

نام کتاب    :    امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)
مصنف    :    فصیح اکملؔ
صفحات    :                 94
قیمت    :     100روپے
ملنے کا پتہ    :    ایم آر پبلی کیشنز ،پٹودی ہاؤس،
دریاگنج ،نئی دہلی
تبصرہ نگار    :   
فرمان چودھری
فصیح اکمل ؔقادری کا نام دنیائے اردو میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔آپ روایت شکن کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مستند اور عہد ساز نثر نگار ہیں۔آپ کے فنی جوہر نظم اور نثر دونوں میں یکساں طور پر نظر آتے ہیں۔موصوف کی تازہ تصنیف امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)نہایت ہی قابل قدر کتاب ہے، جس سے حضرت امیر خسروؒ کے حالات و کوائف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔فصیح اکملؔ حضرت امیر خسروؒ سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں۔اور عقیدت بھی کیوں نہ ہو، جب بزرگان دین سے عقیدت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا سید انوار حسین قادریؒ جید عالم دین اور آستانۂ حضرت فخر عالم قادریؒ کے صاحب سجادہ تھے، جن کانسبی سلسلہ حضرت غوث اعظم علیہ الرحمتہ سے ملتا ہے۔
حضرت امیر خسرو ؒ پر لکھے گئے اس میوزیکل اوپیرا سے مصنف کے صوفیانہ مزاج کی تصدیق ہوتی ہے۔زیر نظر کتاب کو مصنف نے تین ایکٹ میں تقسیم کیا ہے اور ہر ایکٹ میں سات سات مناظر ہیں۔ ایکٹ اور مناظر کی اس تعداد سے بھی مصنف کے صوفیانہ مزاج کی وضاحت ہوتی ہے۔بہر حال فصیح اکمل اس کتاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں جہاں دیگر پریشانیوں سے دو چار ہوئے وہیں حضرت امیر خسرو ؒسے متعلق تاریخی حوالوں میں تضاد سے بھی انہیں کافی دشواری ہوئی۔اس لیے اپنے پیش لفظ میں صاحب کتاب نے شاعرانہ تخیل کے سہارے پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے’’کسی ایک شخصیت کو تاریخ کے الجھے ہوئے اوراق سے صاف کرکے نکالنا اور اس کے نقوش کو واضح کرکے دیکھنا اور دکھانا ان تاریخی اصنام کی گرد جھاڑ کر پھر سے سجانا ہے جن پر صدیوں کی گرد ہی نہیں حادثات کی ضرباتِ شدید بھی اثر انداز ہوئی ہیں،اس کے علاوہ ایک ایسے معاشرہ اور ماحول کو زندہ کرکے دیکھنا پڑتا ہے جس کا اب ہلکا سا عکس بھی باقی نہیں ہے‘‘۔
امیر خسروؒ( میوزیکل اوپیرا) میں فصیح اکمل نے حضرت امیر خسرو ؒکی فارسی غزلوں، اشعار اور قطعات کا اردو داں حضرات کے لیے آسان اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ فصیح اکملؔ نے منظوم ترجمہ میں حضرت امیر خسروؒ کے شعری لب و لہجے اور آہنگ کا بھر پور خیال رکھا ہے، جو مصنف کے قادر الکلام شاعر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دوسرے ایکٹ کے تیسرے منظر میں درج خسروؒ کی فارسی غزل ’’ابرمی باردومن می شوم از یار جدا‘‘کا منظوم ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
موسم گل میں بھی ہے مجھ سے مرا یار جدا
ہو سکوں کیسے کہ جب دل سے ہے دلدار جدا
بھری برسات میں یہ عالم رخصت دیکھو
میں جدا گر یہ کناں ابر جدا یار جدا
سبزۂ گل پہ جوانی ہے مگر ہائے نصیب
بلبل زار سے ایسے میں ہے گلزار جدا
میں تو اک عمر رہا تھا تری زلفوں کا اسیر
کس طرح تونے اچانک کیا اے یار جدا
حسن کا اس کے ازل سے ہوں محافظ خسروؔ
پھول سے رہ نہیں سکتا ہے کبھی خار جدا
خسروؒ کے فارسی کلام کے منظوم ترجمہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فصیح اکملؔ یوں رقمطراز ہیں’’ایک دشواری یہ تھی کہ حضرت امیر خسروؒکے کلام کا مسئلہ کس طرح حل ہوکیوں کہ بیشتر کلام فارسی میں ہے، میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ہندی کا کلام جو مرجع ِخلائق ہو چکا ہے اور جس کو اب تک سیکڑوں گانے والے طرح طرح سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، اس کو اسی طرح رکھا جائے اور فارسی کلام کی جہاں ضرورت ہو وہاں آسان اردو میں غزل یا قطعہ یا نظم کے ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا جائے‘‘۔
کتاب کا سر ورق،طباعت اور کاغذعمدہ ہے  لیکن کچھ پروف کی غلطیاں گراں گزرتی ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب امیر خسروؒ کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گی اور اردو دنیا اس کا پرجوش استقبال کرے گی۔

No comments:

Post a Comment