نام کتاب : مولانا محمد علی جوہرتقسیم ایوارڈ کی22سالہ روداد(مجلہ)
زیر اہتمام : مولانا محمد علی جوہراکیڈمی ،دہلی
صفحات : 260
قیمت : درج نہیں
ملنے کا پتہ : ایم سلیم،ایچ136،نیو سیلم پور، دہلی
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا آزاد ہندوستان کی بدقسمتی کہ آج ہم نے مولانا محمد علی جوہر ؔجیسے عظیم مجاہد آزادی کو یکسر فراموش کردیاہے۔ آج کی نوجوان نسل مولانا کے بارے میں صرف اتنا جانتی ہے کہ مولانا ایک شاعر تھے، جبکہ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے جدوجہد کی۔1930میں جب مولانا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے لندن تشریف لے گئے تو انہوں نے وہاں انگریزوں سے دو ٹوک کہا کہ یا تو مجھے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ دو یا پھر قبر کے لیے دو گز زمین۔ کیوں کہ میںغلام ہندوستان میںواپس جانے سے آزاد انگلستان میں مرنا بہتر سمجھتاہوں۔بالآخر مولانا نے اپنے اس قول کو سچ ثابت کرکے دکھایا۔اس کے باوجود آزاد ہندوستان کی تمام سرکاریں مولاناکو نظر انداز کرتی رہیں۔لیکن کچھ ایسے جیالے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض کے ،بغیر کسی حکومتی امداد کے وطن کے ان سپوتوں کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں، جن کی قربانیوں کے بدلے میں ہم آج آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک جیالے کا نام ایم سلیم ہے، جس نے 1974 میں مولانا کے آبائی وطن رامپور میں مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی قائم کی اورجب ذاتی وجوہات سے دہلی تشریف لے آئے تو جوہر اکیڈمی کو بھی دہلی منتقل کردیا۔ایم سلیم تب سے لیکرآج تک اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
زیر نظر مجلہ میں ان ایوارڈ کی تفصیلات ہیں جو مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی کے ذریعہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کوہر سال دئے جاتے ہیں۔ 1989سے شروع ہوا ایوارڈ دینے کا یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی ان 22سالوںمیں ملک کی135 نامور شخصیات کو ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔جوہر اکیڈمی نے اب تک جن لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا ہے، ان کے شخصی خاکہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ایم سلیم نے اپنی صحافتی صلاحیت سے تحریر کرکے اس مجلہ میں شامل کئے ہیں۔
مجلہ کی ابتدا میں فصیح اکملؔ قادری کی نعت ہے۔اس کے بعد اکیڈمی کے قیام کی رودادہے، جس کے بعد مولانا جوہرؔکی منتخب غزلیں ’کلام جوہر‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہیں۔مجلہ میں مولانا جوہر اور ان کی والدہ کے حوالے سے کئی مضامین بھی ہیں۔ان میںڈاکٹر ظہیر علی صدیقی کا’آبادی بیگم،بی اماں‘فضل حق عظیم آبادی کا’ بی اماں‘وصی احمد نعمانی کا’ ہندوستان کا جیالا سپوت محمد علی جوہر‘جلال الدین اسلم کا ’مولانا محمد علی جوہر‘طالب رامپوری کا’ مولانا محمد علی جوہر اور قومی یکجہتی‘ایم سلیم کا ’مولانا محمد علی جوہر ایک انقلابی رہنما‘ڈاکٹر شمیم احمد کا’مولانا محمد علی جوہر ایک عظیم مجاہد آزادی‘اورضیاء الرحمٰن غوثی کا’قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا محمد علی جوہر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ گول میز کانفرنس ، لندن میں کی گئی مولانا کی تاریخی تقریر کو بھی شامل اشاعت کرکے مجلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مجلہ میں ڈاکٹر گلزار دہلوی، آل احمد سروراور ڈاکٹر شوق اثری کی مولانا کو منظوم خراج عقیدت بھی ہے۔ آل احمد سرور کی منظوم خراج عقیدت کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے۔
زیر اہتمام : مولانا محمد علی جوہراکیڈمی ،دہلی
صفحات : 260
قیمت : درج نہیں
ملنے کا پتہ : ایم سلیم،ایچ136،نیو سیلم پور، دہلی
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا آزاد ہندوستان کی بدقسمتی کہ آج ہم نے مولانا محمد علی جوہر ؔجیسے عظیم مجاہد آزادی کو یکسر فراموش کردیاہے۔ آج کی نوجوان نسل مولانا کے بارے میں صرف اتنا جانتی ہے کہ مولانا ایک شاعر تھے، جبکہ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے جدوجہد کی۔1930میں جب مولانا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے لندن تشریف لے گئے تو انہوں نے وہاں انگریزوں سے دو ٹوک کہا کہ یا تو مجھے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ دو یا پھر قبر کے لیے دو گز زمین۔ کیوں کہ میںغلام ہندوستان میںواپس جانے سے آزاد انگلستان میں مرنا بہتر سمجھتاہوں۔بالآخر مولانا نے اپنے اس قول کو سچ ثابت کرکے دکھایا۔اس کے باوجود آزاد ہندوستان کی تمام سرکاریں مولاناکو نظر انداز کرتی رہیں۔لیکن کچھ ایسے جیالے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض کے ،بغیر کسی حکومتی امداد کے وطن کے ان سپوتوں کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں، جن کی قربانیوں کے بدلے میں ہم آج آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک جیالے کا نام ایم سلیم ہے، جس نے 1974 میں مولانا کے آبائی وطن رامپور میں مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی قائم کی اورجب ذاتی وجوہات سے دہلی تشریف لے آئے تو جوہر اکیڈمی کو بھی دہلی منتقل کردیا۔ایم سلیم تب سے لیکرآج تک اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
زیر نظر مجلہ میں ان ایوارڈ کی تفصیلات ہیں جو مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی کے ذریعہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کوہر سال دئے جاتے ہیں۔ 1989سے شروع ہوا ایوارڈ دینے کا یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی ان 22سالوںمیں ملک کی135 نامور شخصیات کو ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔جوہر اکیڈمی نے اب تک جن لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا ہے، ان کے شخصی خاکہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ایم سلیم نے اپنی صحافتی صلاحیت سے تحریر کرکے اس مجلہ میں شامل کئے ہیں۔
مجلہ کی ابتدا میں فصیح اکملؔ قادری کی نعت ہے۔اس کے بعد اکیڈمی کے قیام کی رودادہے، جس کے بعد مولانا جوہرؔکی منتخب غزلیں ’کلام جوہر‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہیں۔مجلہ میں مولانا جوہر اور ان کی والدہ کے حوالے سے کئی مضامین بھی ہیں۔ان میںڈاکٹر ظہیر علی صدیقی کا’آبادی بیگم،بی اماں‘فضل حق عظیم آبادی کا’ بی اماں‘وصی احمد نعمانی کا’ ہندوستان کا جیالا سپوت محمد علی جوہر‘جلال الدین اسلم کا ’مولانا محمد علی جوہر‘طالب رامپوری کا’ مولانا محمد علی جوہر اور قومی یکجہتی‘ایم سلیم کا ’مولانا محمد علی جوہر ایک انقلابی رہنما‘ڈاکٹر شمیم احمد کا’مولانا محمد علی جوہر ایک عظیم مجاہد آزادی‘اورضیاء الرحمٰن غوثی کا’قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا محمد علی جوہر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ گول میز کانفرنس ، لندن میں کی گئی مولانا کی تاریخی تقریر کو بھی شامل اشاعت کرکے مجلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مجلہ میں ڈاکٹر گلزار دہلوی، آل احمد سروراور ڈاکٹر شوق اثری کی مولانا کو منظوم خراج عقیدت بھی ہے۔ آل احمد سرور کی منظوم خراج عقیدت کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے۔
با طل کے سامنے نہ جھکا جو تمام عمر
ہندوستاں تجھے وہ قلندر بھی یاد ہے
بجلی تھا جس کا ذہن، نظر تیغ تیز تھی
آئینہ حرم کا وہ جوہر بھی یاد ہے
ہندوستاں تجھے وہ قلندر بھی یاد ہے
بجلی تھا جس کا ذہن، نظر تیغ تیز تھی
آئینہ حرم کا وہ جوہر بھی یاد ہے
جوہر اکیڈمی نے2010سے مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں کے نام پر بھی بی اماں ایوارڈ شروع کیا ہے۔پہلا ایوارڈ محترمہ کامنا پرساد کو ان کی اردو خدمات کے لیے دیا گیاہے۔امید کی جانی چاہئے کہ مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی اسی طرح مولانا کی یاد کو برادران وطن کے گوش گزار کراتی رہے گی۔
No comments:
Post a Comment