نام کتاب : صبح کی دہلیز(غزلیہ مجموعہ)
مصنف : ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت : 116صفحات
قیمت : 100روپے
ملنے کا پتہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
مصنف : ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت : 116صفحات
قیمت : 100روپے
ملنے کا پتہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
ایک گھر بے درودیوار کا کرکے تعمیر
میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کو اپنا نصب العین بتانے والے ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے نزدیک شاعر کا مقصد خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا ہے ۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے زیر نظر مجموعہ سے قبل دو شعری مجموعے’ احساس کی دھوپ‘ 1983میں اور’ پلکوں پہ خواب‘2003میں جبکہ ایک نثری تصنیف’ قومی ایکتا کے نام ‘ 1983میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ ادبی، سماجی اور تعلیمی انجمنوں میں ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔اسی سرگرمی سے وقت نکال کر وہ اپنے احساسات وجذبات کو شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ان کے وعدوں کی ہے ،حقیقت کیا
جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
حالانکہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ کسی خاص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ،پھر بھی ان کی شاعری ترقی پسند نظریات کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔بقول ڈاکٹر علی احمد فاطمی’’ذکی طارق کی شاعری کا بنیادی لب و لہجہ ،فکر اور اسلوب دونوں ہی اعتبار سے ترقی پسند اقدار اور افکار سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن یہ ترقی پسندی روایتی ہر گز نہیں ہے بلکہ آج کی زندگی سے براہ راست وابستگی رکھتی ہے۔اپنے انداز میں اپنے لب و لہجہ میں آج کی حساس اور پر وقار شاعری جو بھی ایمان و ایقان ،مزاج و مذاق ،کردار و رفتار کے تقاضے رکھتی ہے۔ذکی طارق کی شاعری ان مطالبات کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment