Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Thursday, April 7, 2011

Interview with Tahir Bizenjo Sb.

پاکستانی عوام بھی جمہوریت نواز ہیں: طاہر بزنجو

پاکستان ہندوستان کا نہ صرف پڑوسی ملک ہے بلکہ چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔ تاہم کچھ مفاد پرست سیاستداں ان دو نوں بھائیوں کو کبھی ملنے نہیں دیتے۔دونوں اطراف کے عوام ایک دوسرے سے مل جل کر پیار محبت سے رہنا چاہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تئیں جذباتی لگأو بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہیں۔ وہاں نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ گورنر و وفاقی وزیر۔یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کچھ اسی طرح کے سلگتے سوالات پر گزشتہ دنوں چوتھی دنیا کے سینئر نامہ نگار نوازش مہدی اور  فرمان چودھری نے پاکستان کی ’’نیشنل پارٹی‘‘ کے جنرل سکریٹری  طاہر بزنجو صاحب سے طویل گفتگو کی۔ طاہر بزنجو صاحب گزشتہ دنوں فیضؔ صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے ہندوستان کے دورے پر تھے۔
سوال:آئینی طور پر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، لیکن وہاں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے یہ راز کی بات تو نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی نشونما کا موقع نہیں دیا گیا۔60کی دہائی کے اواخر میں ہی جنرل ایوب اقتدار میں آگئے اور تقریباً10برسوں تک اقتدار پر قابض رہے۔اس کے بعدمختصر مدت کے لیے جمہوریت آئی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد پانچ سال تک جمہوری دور چلتا رہا۔اس کے بعد فوج نے پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر گیارہ سال تک ضیاء الحق صاحب اقتدار میں رہے۔ اس کے بعد جو لنگڑی لولی جمہوریت ہمارے یہاں چلتی رہی اس کو بھی یکے بعد دیگرے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ایسی صورتحال میں سیاست اس طرح نہیں چل سکتی جس طرح چلنی چاہئے۔آج اگر ہم ہندوستان کے حالات دیکھیں ، یہاں الیکشن کمیشن کی مضبوطی کو دیکھیں تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں حالات چاہے کچھ رہے ہوں لیکن جمہوری عمل کبھی ڈسٹرب نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں شروع سے ہی آمروں کا قبضہ رہا ہے، جو پاکستان کی بڑی بدنصیبی ہے،لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کے حامی نہیں ہیں بلکہ عوام دوسرے ممالک کی طرح ہی جمہوریت کے حامی ہیں۔انہوں نے کبھی بھی ڈکٹیٹروں کے آگے خود سپردگی نہیں کی۔یہ ایک اچھی بات ہے۔آج جو حالات ہیں وہ 60اور70کی دہائی سے بالکل مختلف ہیں۔آج دنیا جہان میں جمہوریت کو پذیرائی مل رہی ہے۔
سوال:آپ ہندوستان کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں؟

جواب: ہم ہندوستان فیضؔ صدی کی مناسبت سے آئے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فیض صاحب جمہوریت کے علمبردار تھے۔ اس کے لیے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔وہ ہمیشہ جمہوریت کی آواز بلند کرتے رہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان میں جمہوری عمل جتنا مضبوط ہوگا ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ جب جب پاکستان میں جمہوریت رہی ہے تب تب ہمارے تعلقات ہندوستان سے بہتر رہے ہیں۔
سوال:ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کو جمہوریت راس نہیں آتی ہے۔وہاں ڈکٹیٹر شپ ہی کامیاب ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب:ہر ایک کا اپنا ذہنی معیار ہے۔ ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے، لیکن میں یہاں پر کہوں گا کہ پاکستان اور ڈکٹیٹر شپ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔پاکستان کو جتنی بھی مشکلات برداشت کرنی پڑی ہیں اور جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس کی اصل وجہ عدم جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ ہی ہے۔پاکستان دنیا سے الگ کوئی خلامیں نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک حصہ ہے، اس لیے پاکستان کے عوام بھی اسی طرح جمہوریت کے حامی ہیں جس طرح باقی دنیا کے اور عدم جمہوریت اسی طرح پاکستا ن کے لیے نقصاندہ ہے جس طرح باقی دنیا کے لیے ہو سکتی ہے۔
سوال:پاکستان میں ایسے کون سے عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حالات ہمیشہ ہی دھماکہ خیز رہتے ہیں؟

جواب: پاکستان آج جس صورتحال سے دوچار ہے ۔ظاہر ہے یہ صورتحال راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئی ہے۔جو بڑی اور زور آور قوتیں ہوتی ہیں وہ ہر جگہ اپنے مفادات تلاش کر لیتی ہیں۔مثال کے طور پر افغانستان میں جو حالات ہیں اس کے لیے امریکہ پوری طرح ذمہ دار ہے اور اس کی اصل وجہ امریکی مفادات ہیں لیکن اس نے پاکستان کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کیوں کہ پاکستان کے ڈکٹیٹروں کے اپنے مفادات امریکہ سے وابستہ تھے۔ورنہ یہ ظلم ہرگز نہیں ہو پاتا۔دوسری طرف امریکہ ہندوستان کو پاکستا ن سے اور پاکستان کو ہندوستان سے مسلسل ڈراتا رہتا ہے۔میرا ماننا یہ ہے کہ چلئے پاکستان تو امریکہ کا ساتھ اس لیے دیتا ہے کیوں کہ اس کو امریکہ سالانہ امداد دیتا ہے لیکن ہندوستان تو اپنے آپ میں ایک بڑی طاقت ہے پھر اس نے امریکہ کے دباؤ میں آکر کیوں ہند- ایران- پاکستان گیس پائپ لائن سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ان حالات سے پاکستان اور افغانستان ہی دوچار نہیں ہیں بلکہ امریکہ خودبھی بھگت رہاہے۔وہاں کی معیشت پر اس کے بہت گہرے اثرات پڑے ہیں۔یہ جو دنیا میں دہشت گردی کا بول بالا ہے اس کی یہی وجہ ہے۔ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں،کیونکہ نفرت اور عداوت سے بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے،لیکن سیاست اپنے مفاد کی خاطر دونوں ملکوں کے عوام کو ملنے نہیں دیتی۔
سوال:ابھی آپ نے کہا کہ ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دوریاں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں؟

جواب: یقیناًاس کے لیے دونوں اطراف کے حکمراں طبقے ذمہ دارہیں۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے ، میں گزشتہ دو ہفتہ قبل لکھنؤ اور حیدرآباد گیا تھا ۔میں نے وہاں کے عوام، دانشوروں اور طلبہ سے گفتگو کی ، تو میں نے محسوس کیا کہ یہاں کے عوام کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اور اسی طرح میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام بھی ہندوستانیوں سے نفرت نہیں کرتے ہیںبلکہ محبت کرتے ہیں۔نفرت کی اصل وجہ سیاست ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب مرنے کے بعد بھی دونوں ملکوں کو ملانے کا کام کررہے ہیں کیوں کہ فیض صاحب کو جتنا پسند پاکستان میں کیا جاتاہے ہندوستان میں بھی اس سے کم انہیں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ فیض صاحب کے بارے میں اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہندوستان میں فیض صدی کی تقریبات کا آغاز صدر جمہوریہ ہند نے کیا ہے۔تو فیض صاحب دونوں ملکوں کے عوام کو ملانے کی بنیاد بن سکتے ہیں اور یہ صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔اگر ہم باہم دست و گریباں رہے تو پھر دیگر اقوام کے دباؤ میں رہیں گے۔ ہمیں علاقائی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔آج گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ کوئی بھی عمل اچھا ہو یا برا ہو ، ہم اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم ماضی کے اسباق سے سبق حاصل کریں اور خطہ کے امن و استحکام کے لیے کام کریں۔
سوال: گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کا قتل کیا پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دھبہ نہیں ہے۔ جب وہاںایک گورنر کی زندگی تک محفوظ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کس طرح اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوگا؟ پاکستانی حکومت اس صورتحال پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟

جواب: دیکھئے حکومت اپنے طور پر تو کوشش کر رہی ہے۔اس طرح کے حالات جن سے پاکستان اس وقت دو چار ہے یہ راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئے ہیں۔جن کو امریکہ آج دہشت گرد کہتا ہے، کل تو اس کے منظور نظر وہی لوگ تھے۔پاکستان کے سیاست داں پرو امریکن ہیں جبکہ وہاں کے عوام امریکہ کے مخالف ہیں۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کے حالات تشویشناک ہیں ۔سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کا قتل واقعی افسوسناک تھا۔ یہ دو افرا دکا قتل نہیں بلکہ جمہوریت اور ملک کے آئین کا قتل تھا۔ان کے جیسے لیڈر راتوں رات پیدا نہیں ہوتے بلکہ ایک لمبے عرصے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔انشاء اللہ پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوں گے۔
سوال:عوامی حلقوں میںایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہاہے کہ ایک بار پھر پاکستان کی جمہوری حکومت کاتختہ پلٹ کر فوج اقتدار میں آجائے گی،کیونکہ جمہوری حکومت قانون کے نفاذ میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔آپ کو کیا لگتا ہے؟

جواب: خدشات کی بات تو میں نہیں کروں گا ، لیکن پاکستان کی جو تاریخ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے امکان کو یکسر مستردبھی نہیں کیا جا سکتا ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بغیر امریکی حمایت کے کوئی بھی ڈکٹیٹر ابھی تک پاکستان میں نہ آیا ہے اور آئے گا بھی نہیں۔آج دنیا کے جو حالات ہیں بالخصوص اسلامی دنیا کے ایسے میں لگتا ہے کہ امریکہ کسی پاکستانی ڈکٹیٹر کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے گا،لیکن پھر بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سوال:پاکستانی پارلیمنٹ میں آپ کی پارٹی کی کیا پوزیشن ہے؟

جواب:دیکھئے گزشتہ الیکشن میں بہت ساری پارٹیوں کی طرح ہماری پارٹی نے بھی الیکشن میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ مشرف صاحب کے رہتے ہوئے الیکشن غیر جانب دار نہیں ہو سکتا۔
سوال:اس وقت دنیا بھر میں اہانت رسول کا قانون موضوع بحث بنا ہوا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سارے بے قصور اس قانون کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔اس قانون کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

جواب:ہم تو یہی کہنا چاہیں گے کہ سزا دینے کاکام عدالت کا ہے۔بجائے اس کے کہ اپنی رائے مسلط کی جائے، عدالت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔
سوال:اب عالمی کپ کرکٹ کا زمانہ ہے۔دونوں ممالک میں کرکٹ بے پناہ مقبول ہے۔کیا کرکٹ بھی دونوں ممالک کے عوام کو ملانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

جواب:دو قسم کے تماشائی ہوتے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو کھیل کو کھیل کی طرح لیتے ہیں۔دوسرے قسم کے لوگ اپنی ٹیم سے جذباتی طور پر وابستہ ہوتے ہیں۔یہ صورتحال دونوں ہی ممالک میں ہے۔ابھی تو دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات تعطل کا شکار ہیں لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ ہوتا تھا اس وقت پاکستان کی ٹیم کو ہندوستان میں اور ہندوستان کی ٹیم کو پاکستان میں بہت عزت ملتی تھی۔میرا ماننا ہے کہ سچن جیسینامور کھلاڑی کرکٹ کے ذریعہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،کیوں کہ جب کرکٹ ہوگا تو آنا جانا بھی ہوگا اور تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment