Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Wednesday, February 16, 2011

Tabsara on ''Shehar Khamosh hai"

(نام کتاب    :    شہر خاموش ہے(شعری مجموعہ
مصنف    :    شاہد ماہلی
ضخامت    :    244صفحات
ملنے کا پتہ    :    302تاج انکلیو، گیتاکالونی،دہلی6
تبصرہ نگار    :    فرمان چودھری
زیر نظر مجموعہ میں 76غزلیں اور 39نظمیں شامل ہیں۔مجموعہ کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ شاہد ماہلی ان چند شعرا میں سے ایک ہیں جو شاعری کی دونوںاصناف نظم اور غزل پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔شاہد ماہلی کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں’’غزل کی دنیا میں شاہد ماہلی کے یہاں تمثیل اور استعارے کا رنگ کم نظر آتا ہے۔نظموں میں تو متکلم اپنے خیالوں اور اپنے خوابوں کا تذکرہ اپنے سننے والوں یا پڑھنے والوں سے کر ہی دیتا ہے،چاہے وہ کسی بھی پردے کے پیچھے سے کیوں نہ ہو ۔لیکن غزل میں شاہد ماہلی تجربات کا بیان براہ راست کرتے ہیں۔اپنی مایوسیوں ،شکستوں اور فریب خوردگیوں کا ذکر ان کے یہاں ایک عجب تلخی اورایک غمگین بیچارگی کے ساتھ ہوا ہے۔زندگی اور محبت اور موت ان کے لیے کسی لطف یا کامیابی کا امکان نہیں رکھتیں۔شاہد ماہلی کی غزلوں میں انسان سب کچھ دیکھ کر اب چپ چاپ بیٹھا ہوا گذشتہ اور حال کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شاہد ماہلی ایک ایسے شاعر ہیں جو اگر اپنے اندر کی دنیا سے باخبر رہتے ہیں تو اپنے باہر کی دنیا سے بھی منھ نہیں موڑتے ہیں۔مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔
چارسو دشت میں پھیلا ہے اداسی کا دھواں
پھول سہمے ہیں،ہوا ٹھہری ہے،منظر چپ ہیں
شکستہ حال تمناؤں کا عذاب نہ دے
متاع درد بہت ہے اب اضطراب نہ دے
سیاہ رات کی تنہائیاں گوارہ ہیں
جو ہو سکے تو سحر دے سنہرے خواب نہ دے
شاہد ماہلی اپنی غزلوں میں بڑی سادگی کے ساتھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ان کی غزلوں میں اپنی زندگی کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔ شاید یہی غزل کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔شاہد ماہلی کی غزلوں سے متاثر ہوکر شمیم حنفی کہتے ہیں’’شاہد کی غزلوں میں روایت شناسی اور نوکلاسیکیت کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعات، تجربات، اسلوب بیان اور زبان،سب کی سطح پر وہ اسی شریعت کے پابند رہتے ہیں۔ نئی حسیت اور بصیرت کے اظہار کی صورتیں ،اسی لیے ان کی غزل کے کم شعروں میں نمودار ہوئی ہیں‘‘۔چند اشعار پیش ہیں۔
اک آنچ تھی کہ جس سے سلگتا رہا وجود
شعلہ سا جاگ اٹھّے وہ شدت نہیں ملی
کچھ دور ہم بھی ساتھ چلے تھے کہ یوں ہوا
کچھ مسئلوں پہ ان سے طبیعت نہیں ملی
تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر
مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا
وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ
یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا
اگر شاہد ماہلی کی نظموں کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ براہ راست ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو قاری کے دل میں سیدھے اتر جاتا ہے۔منظر پس منظر،لوگ دھیرے دھیرے اپنے دروازے کھول رہے ہیں،ایک لمحہ،عجیب لوگ،کرفیو اور واپسی کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ شاہد ماہلی قاری کے سامنے اپنی بات کس شدت کے ساتھ رکھتے ہیں اس کا اندازہ ان کی ایک مختصر سی نظم ’اندیشہ ‘سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے۔
دور تک الفاظ کا پھیلا ہے زہر
چہار سو مفہوم و معنی کے مکاں
شاہراہیں ہیں خیال و فکر کی
کوچۂ فہم و شعور
ہے یہ اندیشہ
کسی دن پھٹ نہ جائے
میرے سینے کا کوئی
آتش فشاں
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے بقول شمس الرحمن فاروقی’’تجربے کی انفرادیت اور احساس کی ندرت سے بھرا ہوا یہ مجموعہ آج کل کے مجموعوں کی بھیڑ میں نمایاں نظر آتا ہے‘‘۔

No comments:

Post a Comment