
مصنف : نعمان شوقؔ
ضخامت : 244صفحات
قیمت : 150روپے
ملنے کا پتہ : تخلیق کار پبلشرز ،104/Bیاور منزل لکشمی نگر،دہلی
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
غزلیہ شاعری جتنی مقبول ہے نظمیہ شاعری بھی اس سے کم مقبول نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں بھی جب کہ نظم کہنے والے شعرا کا قحط سا ہو گیا ہے،چند شعرا آج بھی نظم کی بنجر زمین میں اپنی فکر کے ہل چلا رہے ہیں۔انہیں چند مخصوص شعرا کی فہرست میں ایک نام نعمان شوق کا بھی ہے۔آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ نعمان شوق شاعری کی دونوں اصناف غزل اور نظم میں مکمل عبور رکھتے ہیں۔اس کا اندازہ ان کے زیر نظر مجموعہ کلام ’’فریزر میں رکھی شام ‘‘سے ہو جاتا ہے۔نعمان شوق نے اپنے اس مجموعہ میں کل ملاکر 91نظموں کو شامل کیا ہے اور اس بھرم کو قائم رکھا ہے کہ آج بھی شاعری میں اظہار کا اصل وسیلہ نظمیں ہی ہیں۔جو شاعر اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ لکھنا اس کا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے تو اس شاعر کی تخلیق کے معیار کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔مزاجاً تنہائی پسند نعمان شوق جہاں تشدد ،جھوٹ اور مکاری سے سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں وہیںفرقہ پرستی اور دہشت گردی کو انسان کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں۔اس کا اظہار وہ اپنی نظموں میں جا بجا کرتے ہیں۔سرحد پر،مکھیہ دھارا میں،سڑک کے دونوں طرف خیریت ہے،جنگ،ڈوبتی ناؤ،گراؤنڈ زیرو اور زمین کا جنرل نالج وغیرہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ڈوبتی ناؤ ان کی مختصر سی نظم ہے لیکن جذبہ کی شدت اس نظم میں اپنے عروج پر ہے۔
نظریات کی سیڑھیوں کے نیچے
کھدائی جاری ہے
پوری طاقت سے پکڑے رہیے
اپنے اپنے ملک،مذہب
اور عقیدے کے سانپوں کی دم
جیسے پکڑے رہتے ہیں
ڈوبتی ناؤ پر سوار لوگ
ایک دوسرے کو!
نعمان شوق جہاں بہترین تخلیق کار ہیں وہیں وہ تنقیدی بصیرت سے بھی مالامال ہیں۔اس لیے ان کی نظمیں صرف الفاظ کی نشست و برخاست تک ہی محدود نہیں ہیںبلکہ آج کے مادہ پرست اور پر فتن دور میں وہ اپنی شاعری کے ذریعہ ایک پیغام دینا چاہتے ہیں، جس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔انہوں نے عشقیہ نظمیں نہیں کہیں۔اس کا برملا اظہار وہ یوں کرتے ہیں۔’’میں نے عشقیہ نظمیں نہیں لکھیں کیونکہ کسی ہیر کے دو پٹے میں میرے نام کی کوئی گانٹھ نہیں لیکن عشق کا جو مکروہ اور ہیبت ناک چہرہ میں نے مہا نگر میں دیکھا اس کی جھلک کہیں کہیں میری نظموں میں ضرور ملتی ہے۔جسم سے ایک نوع کی بیزاری میری فکر کو روح پر مرکوز کرتی ہے‘‘۔’ایک غیر ضـروری نظم ،’اس کا ساتھ‘ اور’ فریزر میں رکھی شام‘ نظموں کو اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔’صرف نظم‘ کا یہ آخری بند ملاحظہ کیجیے۔کھدائی جاری ہے
پوری طاقت سے پکڑے رہیے
اپنے اپنے ملک،مذہب
اور عقیدے کے سانپوں کی دم
جیسے پکڑے رہتے ہیں
ڈوبتی ناؤ پر سوار لوگ
ایک دوسرے کو!
گناہ اور تاسف کی
اس بے کنار جلوہ گاہ میں
چلنے اور تھکنے کے درمیان
خوف اور حیرانی کے بھنور میں
الجھ کر رہ گئی ہے انسانیت
اور ہم!
شاعری کر رہے ہیں
صرف شاعری!
نعمان شوق کے مجموعے کی پہلی نظم کا عنوان’’موسم بہار کی پہلی نظم‘‘ اور آخری نظم کا عنوان’’ موسم بہار کی آخری نظم ‘‘ہے۔ان دو نظموں کے بیچ نعمان شوق کسی بھی ازم سے غیر وابستہ ہوکر اپنی نظموں میں زندگی کے کسی بھی مسئلے کو نہیں چھوڑ تے ہیں۔بقول ان کے’’اس نام نہاد ترقی اور گلوبلائزیشن کے عہد میں میرے آس پاس جو کچھ رو نما ہو رہا ہے خود کو اس سے الگ تھلگ رکھنا میرے بس میں نہیں۔البتہ میں ان واقعات کو تاریخی حقائق کے طور پر نہیں بلکہ انسانی المیہ کی شکل میں دیکھتا ہوں‘‘۔امید کی جانی چاہئے کہ نعمان شوق کا یہ مجموعہ نہ صرف ادبی حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس کرائے گا بلکہ نظم کہنے والے شعرا کی ہمت میں اضافہ بھی کرے گا۔اس بے کنار جلوہ گاہ میں
چلنے اور تھکنے کے درمیان
خوف اور حیرانی کے بھنور میں
الجھ کر رہ گئی ہے انسانیت
اور ہم!
شاعری کر رہے ہیں
صرف شاعری!
No comments:
Post a Comment