Farman Chaudhary

Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali
Monday, February 28, 2011
Tabsara on (Seerat Rasool e Akram,saws)

مصنف : محمدامام الدین کشی نگری
ضخامت : 316صفحات
ملنے کا پتہ :رضوی کتاب گھر،اردو مارکیٹ،مٹیا محل،دہلی6-
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
یوں تو بے شمار لوگوں نے آپؐ کی سیرت پاک پر کتابیں لکھیں اور سب کا اپنا ایک منفرد انداز رہا ۔ہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تمام لکھنے والوں کو قارئین بھی ملے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیرت پر کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس لیے جب بھی کوئی اس عنوان کے تحت لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینی طور پر وہ اپنے میدان کا ماہر ہوتا ہے۔یعنی لکھنے والا معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے، چونکہ کتاب میں پیغمبر اسلام کی حیات و خدمات کو قلم بند کیا جاتا ہے، لہذا سیرت نگار کو قارئین کا ایک حلقہ ملنا یقینی ہو جاتا ہے۔جناب محمد امام الدین کشی نگری بھی انہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کی جماعت کے ایک فرد ہیں۔ انھوں نے سیرت نگاری پر ’’سیرت رسول اکرمؐ‘‘ نامی کتاب تصنیف دے کرکے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب منفرد نوعیت کی حامل ہے۔موصوف کا انداز بیان تو دلکش ہے ہی ساتھ ہی عمیق تحقیق کی جھلکیاں ان کی تحقیقی کاوشوں کی غمازی کرتی ہیں۔ان کی یہ کاوش سیرت نگاری کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اس میںجناب محمد امام الدین نے ظہور اسلام سے پہلے عرب کی صورت حال سے لیکر آپ ؐکے وصال تک کے حالات کامیابی کے ساتھ قلمبند کئے ہیں۔اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اسے ایک ہندوستانی نے مدینہ منورہ میں تصنیف کیا ہے۔مصنف نے اس کتاب کو تین مرکزی عنوانات ’ رسول اکرمؐ کی مکی زندگی،مدنی زندگی اور شخصی زندگی کے تحت قلم بند کیا ہے۔موصوف نے نہ صرف ہر واقعات کو الگ الگ عنوان کے تحت سجایا ہے بلکہ واقعہ کے مقام و وقت،ماہ و سال،سن ہجری اور عیسوی کا بیان بھی کردیا ہے۔ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف نے باضابطہ طور پر عا لمیت یا مولویت کی ڈگری نہیں لی ہے(وہ ایم اے بی ایڈ ہیں اور پیشے کے لحاظ سے کمپیوٹر آپریٹر ہیں) بلکہ عشق رسول سے سرشار ہوکر یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔کتاب کو مصنف نے بہت سلیقے کے ساتھ مرتب کیا ہے اور ان خوش نصیبوں میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جنہوں نے نبی کریم ؐ کی تاریخی زندگی اور انقلابی خدمات پر قلم اٹھایا اور سیرت رسولؐ پر کوئی کتاب تالیف کی۔
کتاب کے ابتدا اور اخیر میں حمد و نعت کو بھی مصنف نے شامل کیاہے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے عاشقان رسولؐ میں اپنا نام درج کراکر سیرت کے باب میں ایک بیش قیمت اضافہ کیا ہے۔ جسے یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ آج سے سوا چودہ سو سال قبل سرزمین عرب میں آنکھیں کھولنے والے آخری نبی حضرت محمدؐ کی سیرت پاک کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کا کام آپؐ کے عہد مبارک میں ہی شروع ہو چکا تھا۔جو آہستہ آہستہ ایک مستقل فن کی شکل اختیار کرگیا۔صحابۂ کرام ؓجس طرح احادیث رسولؐ کو جمع کر رہے تھے،اسی طرح حیات رسولؐ کی ایک ایک ادا،ایک ایک قول و فعل اور طریقۂ زندگی کے ایک ایک عمل کو بھی انتہائی عقیدت کے ساتھ جمع کر رہے تھے۔سیرت نگاری کا یہ کام اس زمانے سے تا حال جاری و ساری ہے۔اس کام میں کسی بھی زمانے میں کوئی جمود نہیں آیا۔سیرت نگاری کا یہ قافلہ یوں ہی رواں دواں ہے اور اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے ۔ یہ ایسا بحر بیکراں ہے جسے عبور کرنے میں بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ایک مذہبی مفکر کے بقول ’’ آسمان کے چاندتاروں کوتوڑ کر اپنے دامن میں رکھنا جس طرح دشوار مسئلہ ہے اسی طرح سیرت رسول ؐکے ہر گوشے کو سمیٹ لینا بھی نہایت دشوار ہے‘‘۔لیکن اس کے باوجود آج ہر زبان میں سیرت کی چھوٹی بڑی کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ دنیا میںموجود ہے کہ کسی دوسرے عظیم ترین بادشاہ یا حکمراں کی حیات و خدمات پر اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں۔
Tabsara on Dehleez (fictions)

مصنف : سہیل جامعی
قیمت : 100روپے
ملنے کا پتہ : اردو بازار ،دربھنگہ
تبصرہ نگار: فرمان چودھری
افسانہ اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو زندگی کے بے حد قریب مانی جاتی ہے۔شاید اسی لیے اردو میں افسانہ کی ابتدا سے لے کر آج تک اس صنف کی مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔گرچہ افسانہ مغربی ادب سے اردو میں آیا،پھر بھی اردو میں اگر غزل کو مقبولیت حاصل ہے توافسانوں کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہےاورافسانوں کی تخلیق کا سلسلہ منشی پریم چند سے لے کرتا حال جاری ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھایا ہے سہیل جامعی کے افسانوی مجموعے ’دہلیز‘ نے۔
سہیل جامعی کے افسانوی مجموعے ’دہلیز‘ کے یوں تو سبھی افسانے بہت اچھے ہیں لیکن افسانہ ’دہلیز‘ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔اس افسانے میں سہیل جامعی نے انسانی نفسانی ضروریات اور اخلاقی قدروں کی بہترین تصویر کشی کی ہے۔سہیل جامعی اپنے اس افسانہ کے ذریعہ سماج کو ایک مثبت پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں۔مثال کے طور پر افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔’’پھر اوشا کو لگا کہ کسی دن اس کی طرف دیکھ کر بھی لوگ اسی طرح کانا پھوسی کریں گے۔ارے کون نہیں جانتا اسے۔۔۔۔۔۔۔؟تو کیا فرق رہ جائے گا اس لڑکی میں اور مجھ میں۔اتنا سوچتے ہی اوشا اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کنڈکٹر سے بولی۔پلیز ! مجھے یہیں اتار دیں۔۔۔۔‘‘
سہیل جامعی کے اس مجموعے میں کچھ مختصر افسانے بھی ہیں۔جیسے اتحاد،سلسلہ، سچائی، سونے کی چڑیااور وجود وغیرہ وغیرہ۔سچائی ا ن کا مختصر ترین افسانہ ہے،جسے بہت ہی بہتر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔انتہائی مختصر ہونے کے باوجود یہ افسانہ قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔اسی طرح ان کا ایک اور افسانہ ’سونے کی چڑیا‘ بھی قاری کے دل پر زبردست چوٹ کرتا ہے۔’فرق‘ افسانہ ہمیں شہر کی بھاگ دوڑ بھری زندگی سے روبرو کراتاہے کہ کس طرح آج ہم اپنے پڑوسی تک سے نا آشنا ہیں۔’دہلیز‘ کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سہیل جامعی کو انسانی نفسیات پر گہری پکڑہے۔جس کا فائدہ وہ اپنے افسانوںکو حقیقت سے قریب تر کرنے میں اٹھاتے ہیں۔
امید کی جانی چاہئے کہ سہیل جامعی کا تخلیقی سفر یوں ہی جاری رہے گا۔اور وہ اپنے مصروف ترین وقت میں سے کچھ لمحے چراکر اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں گے۔ 24 افسانوں پر مشتمل سہیل جامعی کے افسانو ں کا مجموعہ’ دہلیز‘ گرچہ ایک مختصر مجموعہ ہے ،لیکن اختصار کے باوجود اپنے قاری کو زندگی کے تمام مراحل سے روشناس کرانے میں کامیاب ہے۔بہار کے ایک تاریخی شہردربھنگہ کے خوشحال اور قدامت پسند گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے سہیل جامعی کی تعلیم کا سلسلہ جب دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میںشروع ہوا تو پھر انہوں نے سارے تعلیمی مراحل یہیں سے طے کیے۔ دو شہروں کی تہذیبوں کا حسین امتزاج نہ صرف ان کی شخصیت میں جلوہ گر ہے بلکہ ان کے افسانے بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔سہیل جامعی گرچہ پیشے سے تاجر ہیں لیکن لکھنے پڑھنے کا شوق ،ان سے اردو ادب کی خدمت کے لیے کچھ وقت نکال ہی لیتا ہے۔اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’زندگی کی تمام مصروفیات کے با وجود اپنی تجارتی زندگی کے درمیان سے کچھ لمحے چرااپنی خواہشوں کی تکمیل کر کچھ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ زیر نظر کتاب ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔اس سے قبل ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’’لکیر‘‘شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔
شیئر بازار ۔تابناک مستقبل کا ضامن

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں ہماری نئی نسل خصوصاً مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاںلے کر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں تودوسری جانب نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو مالی وسائل کی کمی یا خاندان کی پرورش کا بار گراں اپنے کندھوں پر آجانے کی وجہ سے ترک تعلیم پر مجبور ہوگیا اور انہیں کسب معاش کے لئے نکلنا پڑا۔ہم نے ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے ’’نوجوانوں کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک کالم شروع کیا ہے،تاکہ وہ تھوڑی اور محنت کرکے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ہم اپنے ہرشمارہ میں قلیل مدتی پروفیشنل کورسز کے بارے میں بات کررہے ہیں اور جاب کے متلاشی اور کریئرسازی کے لئے سرگرداںنوجوانوں کوکورس، اس کی افادیت، مطلوبہ تعلیمی لیاقت اور متعلقہ تعلیمی وتربیتی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کریںگے۔آج ہم جس کورس کے تعلق سے بات کرنے جارہے ہیں،اس کا نام ہے’شیئر بازار‘
عالم کاری کے اس دور میں روزگار کے متعدد نئے شعبے وجود میں آئے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس میں آپ گھر بیٹھے تجارت کرسکتے ہیں اور اچھی خاصی دولت کما سکتے ہیں۔ اس ے علاوہ آپ ایکسپرٹ بن کر دوسروں کی رہنمائی بھی کرسکتے ہیں، جس سے آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کیا ہے:
اسٹاک ایکسچینج وہ بازار ہے جہاں بروکرس عام لوگوں اور اداروں کے شیئر خریدتے اور بیچتے ہیں۔ ہندوستان کا شیئر بازار اس وقت شاندار نتائج دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سرمایہ کار بلکہ کریئر کی تلاش میں سرگرداں نوجوان بھی شیئر بازار کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنا رہے ہیں۔ ابھی چند دہائیوں قبل تک اس شعبہ میں صرف ممبئی، کولکاتا اور دہلی کے شیئر بازاروں کے ہی تذکرے ہوتے تھے اور آج حال یہ ہے کہ ملک کے ہر بڑے شہر میں شیئر بازار ہے اور ان ہی بازاروں میں اچھی خاصی ٹریڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیئر بازار کا مستقبل تابناک ہے۔
شیئر بازار میں کریئر:
شیئر بازار میں آپ اپنے کریئر کو کئی طرح سے بناسکتے ہیں۔ مثلاً ماہر معاشیات، اکاؤنٹینٹ، معاشی تجزیہ کار، انویسٹ انالسٹ، کیپٹل مارکیٹ انالسٹ، فیوچر پلانرس، سیکورٹی انالسٹ اور ایکوٹی انالسٹ وغیرہ۔
شیئر بازار میں سب سے اہم شخص اسٹاک بروکر ہوتا ہے۔ اسٹاک بروکر کمیشن لے کر کسی شخص یا ادارے کے لیے شیئر خریدنے کا کام کرتا ہے۔ عام زبان میں اسے شیئر دلال بھی کہتے ہیں، چونکہ شیئر بازار کی مشکلات کو سمجھنا، اس کی پیش گوئی کرنا اور اس پیش گوئی کی بنیاد پر نفع ونقصان کو ذہن میں رکھ کر خرید و فروخت کرنا آسان کام نہیں ہے، اس لیے شیئر بازار میں ان دلالوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جو دلال شیئربازار میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور لگن کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیتے ہیں ان کی مارکیٹ میں زیادہ مانگ ہوتی ہے۔ چونکہ یہ کام صلاحیت کے ساتھ مہارت بھی چاہتا ہے، اس لیے اچھا بروکر بننے کے لیے دلچسپی اور لگن کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی ذہانت کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
کچھ اسٹاک بروکر نجی گاہکوں کے لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ تو کچھ مختلف اداروں سے وابستہ ہو کر ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسے شیئر بروکر جو اداروں کے لیے کام کرتے ہیں، انہیں سیکورٹی ٹریڈر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ بروکر مالی اداروں کے لیے کنسلٹنسی کا بھی کام کرتے ہیں۔ اداروں کے لیے سیکورٹی خریدنے اور فروخت کرنے والے اسٹاک بروکر کمیشن کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ یہی طریقہ نجی گاہکوں کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو اسٹاک بروکر کسی مالی ادارے کے لیے مشیر کا کام کرتا ہے، اسے ایک متعین تنخواہ ملتی ہے۔ جہاں تک کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ آمدنی کا سوال ہے تو کسی بھی شیئر بروکر کی کم سے کم آمدنی10ہزار روپے فی ماہ سے زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
اسٹاک بروکر کی طرح سیکورٹی انالسٹ جیسے ماہرین کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کیوںکہ شیئر بازار ہمیشہ ہی منافع کا کار و بار نہیں ہے، اس میں کئی بار نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ سیکورٹی تجزیہ کار دراصل اس رسک فیکٹر کا تجزیہ کرتا ہے، اس لیے اس کی گائڈ لائن پر ہونے والی سرمایہ کاری میں نقصان کے خطرات کم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف کمپنیاں جو الگ الگ شعبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، سیکورٹی تجزیہ کاروں کی خدمات لیتی ہیں۔ یہ سیکورٹی تجزیہ کار اپنے نتیجے نکالنے کے لیے بازار کو اپنی کسوٹی میں الگ الگ طریقے سے کستے ہیں اور بازار میں نفع ونقصان کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ ایک عام سیکورٹی انالسٹ کی آمدنی 10سے 15ہزار روپے فی ماہ کم سے کم ہوتی ہے۔ جب کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی کی کوئی حد نہیں ہے، جو سیکورٹی انالسٹ جتنا زیادہ صحیح تجزیہ کرتا ہے، اس کی مارکیٹ ویلیو اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
شیئر بازار کا ایک اور اہم شخص ایکوٹی انالسٹ ہے۔ یہ ہندوستانی کیپٹل مارکیٹ کی ترقی اور بڑھتی مقابلہ آرائی کے سبب پیدا ہوا نیا پروفیشنل ہے۔ ایکوٹی تجزیہ کار کسی شخص یا ادارے کو سرمایہ کاری کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت جب بازار کی طاقتیں اثردار کردار ادا کر رہی ہوں، یعنی جب بازار بناؤٹی تیزی یا مندی کا شکار ہو، اس وقت ایکوٹی انالسٹ ہی سرمایہ کار کو بتاتے ہیں کہ انہیں سرمایہ کاری کرنی چاہیے یا نہیں۔
شیئر بازار کے دیگر اہم انسانی وسائل میں انویسٹمنٹ مینجمنٹ، سیکورٹی ریپرزینٹیٹو اور اکاؤنٹ ایگزیکٹیو بھی ہیں۔ ان سب کے لیے بھی شیئر بازار کی سمجھ ہونا ضروری ہے۔
کیسے بنیں اسٹاک بروکر:
اسٹاک ایکسچینج کا ممبر بننے کے لیے آپ کو ایک تحریری امتحان اسٹاک ایکسچینج میں سیکورٹی کے طور پر کچھ رقم جمع کرانا ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسٹاک بروکرنگ کمپنی کے ایجنٹ یا ڈیلر کے طور پر کام کر کے تجربہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ بروکنگ کرنے والی بڑی کمپنیاں فائنانس میں مہارت رکھنے والے ایم بی اے ڈگری والوں، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس اور چارٹرڈ فائنانس انالسٹ کو اولیت دیتی ہیں۔ ایک اسٹاک بروکر کے خاص کاموں میںشیئر بازار کی شرائط کو آسان کرنا اور اپنے گاہک کے لیے تجارتی سرگرمیاں انجام دینا وغیرہ ہیں۔
اسٹاک بروکر ایک ڈیلر اور ایک مشیر کے طور پر کام کرسکتا ہے، جو اپنے علم کی بنیاد پر گاہکوں کو نئے شیئروں کے مستقبل کے بارے میں پوری معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ بازار کے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور اس تجزیہ کی بنیاد پر اپنے گاہک کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ عام طور سے پروفیشنل اہلیت کے ساتھ ایم بی اے اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگری والا کوئی بھی امیدوار اس شعبہ میں اپنا کریئر بناسکتا ہے۔ اس شعبہ میں آمدنی کے لامحدود موا قع ہیں۔
اسٹاک بروکنگ کے ادارے:
اسٹاک ایکسچینج بھون، فورٹ، ممبئی
بی/303وینٹیکس وکاس، اندھیری، ممبئی
نئی دہلی
ناسک-422005 1- ممبئی اسٹاک ایکسچینج ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ 2- انسٹی ٹیوٹ آف فائنانشیل اینڈ انویسٹمنٹ پلاننگ 3- انسٹی ٹیوٹ آف کمپنی سکریٹریز آف انڈیا 4- انسٹی ٹیوٹ آف کیپٹل مارکیٹ ڈیولپمنٹ 1965آریہ سماج روڈ، قرول باغ، نئی دہلی-5 5- آل انڈیا سینٹر فار کیپٹل مارکیٹ اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ
ہوٹل مینجمنٹ میں تابناک کریئر
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں ہماری نئی نسل خصوصاً مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاںلے کر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں تودوسری جانب نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو مالی وسائل کی کمی یا خاندان کی پرورش کا بار گراں اپنے کندھوں پر آجانے کی وجہ سے ترک تعلیم پر مجبور ہوگیا اور انہیں کسب معاش کے لئے نکلنا پڑا۔ہم نے ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے ’’نوجوانوں کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک کالم شروع کیا ہے،تاکہ وہ تھوڑی اور محنت کرکے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ہم اپنے ہرشمارہ میں قلیل مدتی پروفیشنل کورسز کے بارے میں بات کررہے ہیں اور جاب کے متلاشی اور کریئرسازی کے لئے سرگرداںنوجوانوں کوکورس، اس کی افادیت، مطلوبہ تعلیمی لیاقت اور متعلقہ تعلیمی وتربیتی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کریںگے۔آج ہم جس کورس کے تعلق سے بات کرنے جارہے ہیں،اس کا نام ہے ’’ہوٹل مینجمنٹ‘‘
کورس کا نام:ہوٹل مینجمنٹ
کورس کی اہمیت و افادیت:
ہرایک تجارت میں نشیب و فرازآتے رہتے ہیں۔لیکن ہوٹل تجارت ایک ایسی تجارت ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔پوری دنیا میں تیزی سے پنپتی پانچ ستارا ہوٹل تہذیب نے اس شعبہ میں کریئر کے لامحدود مواقع فراہم کئے ہیں۔ہوٹلوں کو چلانے کے لئے باقاعدہ تربیت یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی مانگ اس شعبہ میں ہے۔اس لئے ہوٹل مینجمنٹ میں باقاعدہ تربیت حاصل کر کے آپ بھی اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔
آج کی مادی دنیا میں خوشحال لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ کہیں نہ کہیں ہوٹلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے منافع اور کاروبارو تجارت کے سبب ہوٹلوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ہوٹل دورحاضر کی تہذیب کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ کسی طرح کی پارٹی کا انعقاد ہو یا کمپنی سے متعلق میٹنگ ، صارفین سے متعلق سیمنار ہو یا نئے پروڈکٹ کی لانچنگ یا پھر پریس کانفرنس کا موقع کیوں نہ ہو۔ ان مواقع پر ہوٹل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تجارت کے سبب سیاحت کے شعبہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سیاحت کے فروغ نے ہوٹل کے شعبہ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
تعلیم یافتہ او رباصلاحیت نوجوانوں کی دلچسپی تیزی کے ساتھ ہوٹل مینجمنٹ سے متعلق کورسیز کے تئیں بڑھی ہے۔انگریزی اور دیگر مقامی زبان جاننے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں، جواپنی شخصیت میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں، کے لئے یہ میدان امکانات سے روشن ہے۔ تبادلۂ خیالات کی صلاحیت ، دوسروں کو متاثر کرنے کی خوبی اور استقبال کا جذبہ آپ کو اس میدان میں کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کا موقع نہیں دے گا۔کیونکہ ہوٹل تجارت پوری طرح مہمان نوازی اور خدمت کے جذبے سے سرشار شعبہ ہے۔
محنتی، خوش مزاج، ملنسار، صحت مند، خوبصورت اور باذوق نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے ہوٹل مینجمنٹ ایک بہترین کریئر ہے۔ ون اسٹار سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹل اور ٹورسٹ ہوٹلوں میں مندرجہ بالا نوجوان تربیت کے بعد اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ یہی نہیں تربیت یافتہ نوجوانوں کے لئے فلوئنگ ہوٹل، شینگ کمپنی ، ایئر پورٹ ہوٹل وغیرہ میں چیف رسپشن آفیسر ،فوڈ پروڈکشن، ہائوس کیپنگ، بیوٹریشین، اکائونٹنٹ ، گائڈ ،ویٹر وغیرہ کے عہدوں پر پہنچنے کے مواقع انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس شعبہ میں آپ کے لئے تعلقات استوار کرنے کے بھی بہتر مواقع ہیں۔اہم لوگوں سے رابطہ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختلف میدانوں کے کامیاب لوگوں سے ملنے کے بعد کافی کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
محنتی، خوش مزاج، ملنسار، صحت مند، خوبصورت اور باذوق نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے ہوٹل مینجمنٹ ایک بہترین کریئر ہے۔ ون اسٹار سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹل اور ٹورسٹ ہوٹلوں میں مندرجہ بالا نوجوان تربیت کے بعد اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ یہی نہیں تربیت یافتہ نوجوانوں کے لئے فلوئنگ ہوٹل، شینگ کمپنی ، ایئر پورٹ ہوٹل وغیرہ میں چیف رسپشن آفیسر ،فوڈ پروڈکشن، ہائوس کیپنگ، بیوٹریشین، اکائونٹنٹ ، گائڈ ،ویٹر وغیرہ کے عہدوں پر پہنچنے کے مواقع انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس شعبہ میں آپ کے لئے تعلقات استوار کرنے کے بھی بہتر مواقع ہیں۔اہم لوگوں سے رابطہ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختلف میدانوں کے کامیاب لوگوں سے ملنے کے بعد کافی کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
ہوٹل تجارت کی بات وہاں بننے والے لذیذ کھانوں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔کنفیکشنری اور کھانے کا شعبہ ہوٹل کا ایک اہم حصہ ہے۔اس شعبہ میں معمولی اہلیت اور بغیر تجربے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔بڑے ہوٹلوں میں فوڈ کرافٹ انسٹی ٹیوٹ کے تربیت یافتہ لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ملک میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو اس سے متعلق تربیت کورس چلا رہے ہیں۔اس تجارت میں شیف دی پارٹی عہدوں کے لئے بھی قابل، تجربہ کار اور ادھیڑ لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔جن لوگوں کے پاس ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ اور کم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہوتا ہے، انہیں ان عہدوں کے لئے ترجیح دی جاتی ہے۔
حکومت ہند کی وزارت برائے سیاحت کی دیکھ ریکھ میں نیشنل کائونسل آف ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنالوجی ملک بھر میں پھیلے اپنے 20اداروں کی مدد سے ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس چلا رہا ہے۔ اس میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے لئے ایک کمبائنڈ انٹرینس ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے میں یہ امتحان منعقد کیا جاتا ہے۔22سال سے کم عمر کے دسویں بارہویں سائنس مضامین کے ساتھ پاس نوجوان لڑکے لڑکیاں اس امتحان میں شرکت کی اہلیت رکھتے ہیں۔ڈھائی گھنٹے کی مدت کے اس امتحان میں معروضی سوالوں کے جواب دینے ہوتے ہیں۔تحریری امتحان پاس کرنے والے کامیاب امیدواروں کو انٹر ویو کے لئے بلایا جاتا ہے۔ بعد میں میرٹ کی بنیاد پر ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ منتخب امیدواروں کو تین سال کی مدت میں کل 36مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ عملی تربیت کے لئے الگ سے کلاسیں لی جاتی ہیں۔ ہوٹل مینجمنٹ کے شعبہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد ادارہ حاملین اسناد کو مختلف ہوٹلوں میں عملی تربیت کے لئے بھیجتا ہے۔جہاں ٹریننگ کے دوران انہیں ڈیڑھ ہزار روپے سے تین ہزار روپے تک وظیفہ ملتا ہے۔
کورسیز:
ہوٹل مینجمنٹ کے اداروں میں مختلف کورس دستیاب ہوتے ہیں۔جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ڈپلومہ ان ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنالوجی (تین سال)۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان اکوموڈیشن آپریشن مینجمنٹ (ہائوس کیپنگ ، فرنٹ آفس)ڈیڑھ سال۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس ان ڈائٹیٹکس اینڈ ہاسپیٹل فوڈ سروس (ایک سال)۔
سرٹیفکیٹ کورس ان ہوٹل کیٹرنگ مینجمنٹ(21ہفتے، سال میں 2بیچ)۔
کرافٹ مین شپ کورس ان فوڈ اینڈ بیوریج سروس(6ماہ، سال میں دو بیچ)۔
یہی نہیں خواتین کے لئے کوکری، بیکری اور کنفیکشنری کے 13ہفتوں کے (ہفتے میں2بار کلاس) کورس بھی کرائے جاتے ہیں۔ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس بھی کرائے جاتے ہیں،جن کی فیس کورس کے مطابق ہوتی ہے۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان اکوموڈیشن آپریشن مینجمنٹ (ہائوس کیپنگ ، فرنٹ آفس)ڈیڑھ سال۔
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس ان ڈائٹیٹکس اینڈ ہاسپیٹل فوڈ سروس (ایک سال)۔
سرٹیفکیٹ کورس ان ہوٹل کیٹرنگ مینجمنٹ(21ہفتے، سال میں 2بیچ)۔
کرافٹ مین شپ کورس ان فوڈ اینڈ بیوریج سروس(6ماہ، سال میں دو بیچ)۔
یہی نہیں خواتین کے لئے کوکری، بیکری اور کنفیکشنری کے 13ہفتوں کے (ہفتے میں2بار کلاس) کورس بھی کرائے جاتے ہیں۔ہوٹل مینجمنٹ میں تین سالہ ڈپلومہ کورس پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس بھی کرائے جاتے ہیں،جن کی فیس کورس کے مطابق ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ گریجویٹ اسکول آف ہوٹل ایڈمنسٹریشن، دہلی ویو ہوٹل(ویلکم گروپ) منی پال بھی قومی سطح پر تحریری اور زبانی امتحان منعقد کر کے امیدواروں کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ ادارہ بھی ہوٹل مینجمنٹ کے سبھی نقطوں کی باقاعدہ جانکاری دستیاب کراتا ہے۔ اس ادارہ نے ایک پلیسمنٹ سیل بھی کھولی ہوئی ہے۔ جہاں سے ملک اور بیرون ملک نوکری مل سکتی ہے۔ یہ ادارہ اعلیٰ تربیت کے لئے اپنے طلبا کو امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھیجتا ہے۔
ایک دیگر ادارہ اوبرائے اسکول آف ہوٹل مینجمنٹ بھی ہوٹل مینجمنٹ کے معاملہ میں باوقار ادارہ مانا جاتا ہے۔ یہ ادارہ انٹر نیشنل ہوٹل ایسو سی ایشن ان پیرس سے منظور شدہ ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ہوٹلوں کے بڑے عہدیداراس ادارہ کے گریجویٹ ہیں۔ یہاں سے تین سالہ ڈپلومہ کرنے کے بعد تربیت یافتہ نوجوان معاون منیجر کے طور پر نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں سے تین سالہ ڈپلومہ کے بعد پی جی ڈپلومہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہوٹل انڈسٹری میں لڑکیوں کے لئے بھی کافی مواقع ہیں۔ ہوسٹیس عہدوں کے لئے عام طور پر 22سے 26سال کی عمر کی لڑکیوں کو لیا جاتا ہے۔فراٹے دارانگریزی، متعلقہ شعبہ کا تجربہ، غیر ملکی زبان کا علم اور لوگوں کو ڈیل کرنے کا سلیقہ اس کے لئے ضروری اہلیت ہے۔
مجموعی طورپر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہوٹل مینجمنٹ کے شعبہ میں قدم رکھ کر آج کے نوجوان اپنے روشن اور تابناک مستقبل کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں۔
اہم ادارے:
اہم ادارے:
n اوبرائے سینٹر، دہلی
7، شام ناتھ مارگ، نئی دہلی110054-
n آئی ایچ ایم،ممبئی
ویر سوارکر مارگ، دادر(ڈبلیو آر)، ممبئی400028-
n ڈبلیو جی ایس ایچ اے، منی پال
7، شام ناتھ مارگ، نئی دہلی110054-
n آئی ایچ ایم،ممبئی
ویر سوارکر مارگ، دادر(ڈبلیو آر)، ممبئی400028-
n ڈبلیو جی ایس ایچ اے، منی پال
ویلی ویو، منی پال576119-
n آئی ایچ ایم، دہلی
نیشنل کونسل فار ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنا لوجی، پوسا، نئی دہلی
n آئی ایچ ایم، اورنگ آباد
ڈاکٹر رفیع ذکریہ کیمپس، روزہ باغ، اورنگ آدباد431001-
n آئی ایچ ایم، دہلی
نیشنل کونسل فار ہوٹل مینجمنٹ اینڈ کیٹرنگ ٹکنا لوجی، پوسا، نئی دہلی
n آئی ایچ ایم، اورنگ آباد
ڈاکٹر رفیع ذکریہ کیمپس، روزہ باغ، اورنگ آدباد431001-
n آئی ایچ ایم بنگلور
ایس جے پولی ٹیکنک کیمپس، سیشادری روڈ، بنگلور560001
ایس جے پولی ٹیکنک کیمپس، سیشادری روڈ، بنگلور560001
Friday, February 18, 2011
Tabsara on (Freezar mein rakhi shaam)

مصنف : نعمان شوقؔ
ضخامت : 244صفحات
قیمت : 150روپے
ملنے کا پتہ : تخلیق کار پبلشرز ،104/Bیاور منزل لکشمی نگر،دہلی
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
غزلیہ شاعری جتنی مقبول ہے نظمیہ شاعری بھی اس سے کم مقبول نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں بھی جب کہ نظم کہنے والے شعرا کا قحط سا ہو گیا ہے،چند شعرا آج بھی نظم کی بنجر زمین میں اپنی فکر کے ہل چلا رہے ہیں۔انہیں چند مخصوص شعرا کی فہرست میں ایک نام نعمان شوق کا بھی ہے۔آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ نعمان شوق شاعری کی دونوں اصناف غزل اور نظم میں مکمل عبور رکھتے ہیں۔اس کا اندازہ ان کے زیر نظر مجموعہ کلام ’’فریزر میں رکھی شام ‘‘سے ہو جاتا ہے۔نعمان شوق نے اپنے اس مجموعہ میں کل ملاکر 91نظموں کو شامل کیا ہے اور اس بھرم کو قائم رکھا ہے کہ آج بھی شاعری میں اظہار کا اصل وسیلہ نظمیں ہی ہیں۔جو شاعر اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ لکھنا اس کا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے تو اس شاعر کی تخلیق کے معیار کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔مزاجاً تنہائی پسند نعمان شوق جہاں تشدد ،جھوٹ اور مکاری سے سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں وہیںفرقہ پرستی اور دہشت گردی کو انسان کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں۔اس کا اظہار وہ اپنی نظموں میں جا بجا کرتے ہیں۔سرحد پر،مکھیہ دھارا میں،سڑک کے دونوں طرف خیریت ہے،جنگ،ڈوبتی ناؤ،گراؤنڈ زیرو اور زمین کا جنرل نالج وغیرہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ڈوبتی ناؤ ان کی مختصر سی نظم ہے لیکن جذبہ کی شدت اس نظم میں اپنے عروج پر ہے۔
نظریات کی سیڑھیوں کے نیچے
کھدائی جاری ہے
پوری طاقت سے پکڑے رہیے
اپنے اپنے ملک،مذہب
اور عقیدے کے سانپوں کی دم
جیسے پکڑے رہتے ہیں
ڈوبتی ناؤ پر سوار لوگ
ایک دوسرے کو!
نعمان شوق جہاں بہترین تخلیق کار ہیں وہیں وہ تنقیدی بصیرت سے بھی مالامال ہیں۔اس لیے ان کی نظمیں صرف الفاظ کی نشست و برخاست تک ہی محدود نہیں ہیںبلکہ آج کے مادہ پرست اور پر فتن دور میں وہ اپنی شاعری کے ذریعہ ایک پیغام دینا چاہتے ہیں، جس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔انہوں نے عشقیہ نظمیں نہیں کہیں۔اس کا برملا اظہار وہ یوں کرتے ہیں۔’’میں نے عشقیہ نظمیں نہیں لکھیں کیونکہ کسی ہیر کے دو پٹے میں میرے نام کی کوئی گانٹھ نہیں لیکن عشق کا جو مکروہ اور ہیبت ناک چہرہ میں نے مہا نگر میں دیکھا اس کی جھلک کہیں کہیں میری نظموں میں ضرور ملتی ہے۔جسم سے ایک نوع کی بیزاری میری فکر کو روح پر مرکوز کرتی ہے‘‘۔’ایک غیر ضـروری نظم ،’اس کا ساتھ‘ اور’ فریزر میں رکھی شام‘ نظموں کو اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔’صرف نظم‘ کا یہ آخری بند ملاحظہ کیجیے۔کھدائی جاری ہے
پوری طاقت سے پکڑے رہیے
اپنے اپنے ملک،مذہب
اور عقیدے کے سانپوں کی دم
جیسے پکڑے رہتے ہیں
ڈوبتی ناؤ پر سوار لوگ
ایک دوسرے کو!
گناہ اور تاسف کی
اس بے کنار جلوہ گاہ میں
چلنے اور تھکنے کے درمیان
خوف اور حیرانی کے بھنور میں
الجھ کر رہ گئی ہے انسانیت
اور ہم!
شاعری کر رہے ہیں
صرف شاعری!
نعمان شوق کے مجموعے کی پہلی نظم کا عنوان’’موسم بہار کی پہلی نظم‘‘ اور آخری نظم کا عنوان’’ موسم بہار کی آخری نظم ‘‘ہے۔ان دو نظموں کے بیچ نعمان شوق کسی بھی ازم سے غیر وابستہ ہوکر اپنی نظموں میں زندگی کے کسی بھی مسئلے کو نہیں چھوڑ تے ہیں۔بقول ان کے’’اس نام نہاد ترقی اور گلوبلائزیشن کے عہد میں میرے آس پاس جو کچھ رو نما ہو رہا ہے خود کو اس سے الگ تھلگ رکھنا میرے بس میں نہیں۔البتہ میں ان واقعات کو تاریخی حقائق کے طور پر نہیں بلکہ انسانی المیہ کی شکل میں دیکھتا ہوں‘‘۔امید کی جانی چاہئے کہ نعمان شوق کا یہ مجموعہ نہ صرف ادبی حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس کرائے گا بلکہ نظم کہنے والے شعرا کی ہمت میں اضافہ بھی کرے گا۔اس بے کنار جلوہ گاہ میں
چلنے اور تھکنے کے درمیان
خوف اور حیرانی کے بھنور میں
الجھ کر رہ گئی ہے انسانیت
اور ہم!
شاعری کر رہے ہیں
صرف شاعری!
سنتوش بھارتیہ ’’آفتاب صحافت‘‘ ایوارڈ سے سرفراز

نئی دہلی:آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے زیر اہتمام دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے سد باب کے لیے قومی یکجہتی کنونشن کا انعقاد نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں کیا گیا۔جس میں اردو کے پہلے بین الاقوامی ہفت روزہ اخبار چوتھی دنیا کے چیف ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ کو ان کی اردومیں صحافتی خدمات کے اعتراف میں’آفتاب صحافت‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔کنونشن میں کانگریس کے سینئر لیڈر آسکر فرنانڈیز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرستی کے خلاف ہم سب کو قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔انہوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ یو پی اے حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں پوری طرح سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لیے کئی اسکیموں کو نافذ کیا ہے۔
ایران کلچرہاؤس کے کلچرل کاؤنسلر ڈاکٹر کریم نجفی نے ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کو یہاں کا عظیم سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا میں ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی یکجہتی کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔اس لیے اسے برقرار رکھنا ہر حال میں ضروری ہے۔انہوں نے بتا یا کہ علامہ اقبالؔ اور رابندر ناتھ ٹیگورایران کے حافظ شیرازی اور دیگر شعرا سے بہت متاثر تھے۔
قومی یکجہتی کنونشن میں چوتھی دنیا کے چیف ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ نے اپنی تقریر سے پہلے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اردو نہیں جانتے ہیںاور ان کا اردو اخبار کاخواب چوتھی دنیا اردو کی مدیر وسیم راشد کے سبب شرمندۂ تعبیر ہو پایا ہے۔انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مردوں کی دنیا میں وسیم راشد اکیلی خاتون ایڈیٹر ہیں۔بھارتیہ جی نے اپنی پوری تقریر اردو ہی میں کی۔جس سے وہاں موجود سامعین بے حد متاثر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں پھر بھی مذہب اسلام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔کیونکہ اسلام نے محبت اور انسانیت کی تعلیم دی ہے۔انہوں نے ہال میں موجود لوگوںکو اس وقت انتہائی جذباتی کر دیا جب انہوں نے کہا کہ وہ اردو نہ جانتے ہوئے بھی اردو کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں کیونکہ اردو گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے،اردونے ملک کو آزادی دلائی،اردو نے خواب کو ایک تعبیر دی،اردو نے ملک کو ایک لڑی میں پرویا اور اردو نے قومی یکجہتی کو فروغ دیا۔انہوں نے وہاں موجود تمام لوگوں سے کہا کہ ہم سب کو مل جل کر قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہئے۔ حالانکہ انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ اس انتہائی اہم موضوع پر منعقد قومی کنونشن میں خواتین کی شرکت نہ کے برابر ہے ،جبکہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ،جیسا کہ آج میں یہاں تک اپنی بیگم کی وجہ سے پہنچا ہوں۔
مولانا احمد خضر شاہ نے جذباتی انداز میںکہا کہ حکومتوں نے کمیٹیاں قائم کیں،ان کی رپورٹیں منظر عام پر آئیں،لیکن ان پر عمل کرنے میں تساہلی کا مظاہرہ کیا گیا۔اس لیے آج ضرورت مرض کے تشخیص کی نہیں بلکہ علاج کی ہے۔انہوں نے کہا کہ مدارس اسلامیہ میں اتحاد ،قربانی ،یکجہتی اور آزادی کی تعلیم دی جاتی ہے۔اور اسے ہمارے اکابرین نے اپنے عمل سے ثابت بھی کیا ہے۔
اس مو قع پر سہ ماہی حسن تدبیر کے خصوصی شمارہ’مدارس نمبر‘ اور ماہنامہ نعرۂ تکبیر کی ایران کے حوالے سے خصوصی اشاعت کا اجراء بھی عمل میں آیا۔اس سے قبل قاری عبدالسمیع نے قومی یکجہتی کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم اپنے مخصوص انداز میں پیش کی۔
قومی یکجہتی کنونشن کی صدارت مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کی ۔انہوں نے قومی یکجہتی کنونشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص محبت کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔انگریزوں نے ہندو مسلم یکجہتی میں زہر گھولا تھا ،جس کی جڑیں آج بھی کمزور نہیں ہوئی ہیں۔اس لیے ہمیں ایک بار پھر اس پہلو پر ازسر نو ملک گیر محنت کرنی پڑے گی۔
قومی یکجہتی کنونشن میں مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی اہم شخصیات کو بھی اعزازات سے نوازا گیا،ان میں اتر پردیش کے سابق وزیرڈاکٹر معراج الدین،جمعیۃ القریش دہلی کے صدر ساجد عتیق،مولاناروشن عالم مظاہری،میرحسن علوی،اشتیاق حسین رفیقی،خالدانور،مولاناالطاف حسین مظاہری،ڈاکٹر کاشف ذکائی،قاری شمس الدین،محمد عزیز بقائی،محمد ریاض الدین ،مولانا معین الحق قاسمی،ڈاکٹر تاج الدین انصاری اور محمد شارق عرف آشو خان وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ قومی یکجہتی کنونشن کی نظامت کے فرائض مفتی افروز عالم قاسمی نے انجام دئے۔جبکہ کنونشن کا افتتاح قاری ابوالحسن اعظمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
संतोष भारतीय को आफ़ताब-ए-सहाफ़त अवार्ड
![]() |
फरमान चौधरीअधिवेशन में चौथी दुनिया के प्रधान संपादक संतोष भारतीय ने कहा कि वह उर्दू न जानते हुए भी उर्दू की लड़ाई लड़ना चाहते हैं, क्योंकि उर्दू गंगा-जमुनी तहज़ीब की ज़ुबान है, उर्दू ने देश को आज़ादी दिलाई, उर्दू ने ख्वाब को ताबीर दी, उर्दू ने देश को एक लड़ी में पिरो दिया और उर्दू ने राष्ट्रीय एकता का विकास किया. उन्होंने वहां मौजूद तमाम लोगों से कहा कि हम सबको मिलजुल कर राष्ट्रीय एकता के विकास के लिए काम करना चाहिए. इस अवसर पर त्रैमासिक हुस्न-ए-तदबीर के विशेष अंक मदारिस नंबर और मासिक नारा-ए-तकबीर के ईरान के हवाले से विशेष अंक का विमोचन भी हुआ. राष्ट्रीय एकता अधिवेशन में विभिन्न क्षेत्रों में बेहतरीन सेवाएं प्रदान करने वाले अहम लोगों को भी सम्मानित किया गया, जिनमें उत्तर प्रदेश के पूर्व मंत्री डॉक्टर मेराजुद्दीन, जमीअतुल कुरैश दिल्ली के अध्यक्ष साजिद अतीक़, मौलाना रोशन आलम मज़ाहिरी, मीर हसन अल्वी, इश्तियाक़ हुसैन रफ़ीक़ी, ख़ालिद अनवर, मौलाना अल्ताफ़ हुसैन मज़ाहिरी, डॉ. काशिफ़ ज़काई, क़ारी शम्सुद्दीन,मोहम्मद अज़ीज़ बक़ाई, मोहम्मद रियाज़ुद्दीन, मौलाना मुईनुल हक क़ासमी, डॉक्टर ताजुद्दीन अंसारी और मोहम्मद शारिक़ उर्फ़ आशू ख़ां आदि के नाम उल्लेखनीय हैं. अधिवेशन का संचालन मुफ़्ती अफ़रोज़ आलम क़ासमी ने किया, जबकि उद्घाटन क़ारी अबुल हसन आज़मी की तिलावते कुरआन-ए-पाक से हुआ. |
Wednesday, February 16, 2011
Tabsara on ''Shehar Khamosh hai"
(نام کتاب : شہر خاموش ہے(شعری مجموعہ
مصنف : شاہد ماہلی
ضخامت : 244صفحات
ملنے کا پتہ : 302تاج انکلیو، گیتاکالونی،دہلی6
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
مصنف : شاہد ماہلی
ضخامت : 244صفحات
ملنے کا پتہ : 302تاج انکلیو، گیتاکالونی،دہلی6
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
زیر نظر مجموعہ میں 76غزلیں اور 39نظمیں شامل ہیں۔مجموعہ کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ شاہد ماہلی ان چند شعرا میں سے ایک ہیں جو شاعری کی دونوںاصناف نظم اور غزل پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔شاہد ماہلی کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں’’غزل کی دنیا میں شاہد ماہلی کے یہاں تمثیل اور استعارے کا رنگ کم نظر آتا ہے۔نظموں میں تو متکلم اپنے خیالوں اور اپنے خوابوں کا تذکرہ اپنے سننے والوں یا پڑھنے والوں سے کر ہی دیتا ہے،چاہے وہ کسی بھی پردے کے پیچھے سے کیوں نہ ہو ۔لیکن غزل میں شاہد ماہلی تجربات کا بیان براہ راست کرتے ہیں۔اپنی مایوسیوں ،شکستوں اور فریب خوردگیوں کا ذکر ان کے یہاں ایک عجب تلخی اورایک غمگین بیچارگی کے ساتھ ہوا ہے۔زندگی اور محبت اور موت ان کے لیے کسی لطف یا کامیابی کا امکان نہیں رکھتیں۔شاہد ماہلی کی غزلوں میں انسان سب کچھ دیکھ کر اب چپ چاپ بیٹھا ہوا گذشتہ اور حال کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شاہد ماہلی ایک ایسے شاعر ہیں جو اگر اپنے اندر کی دنیا سے باخبر رہتے ہیں تو اپنے باہر کی دنیا سے بھی منھ نہیں موڑتے ہیں۔مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔
چارسو دشت میں پھیلا ہے اداسی کا دھواںپھول سہمے ہیں،ہوا ٹھہری ہے،منظر چپ ہیں
شکستہ حال تمناؤں کا عذاب نہ دے
متاع درد بہت ہے اب اضطراب نہ دے
سیاہ رات کی تنہائیاں گوارہ ہیں
جو ہو سکے تو سحر دے سنہرے خواب نہ دے
شاہد ماہلی اپنی غزلوں میں بڑی سادگی کے ساتھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ان کی غزلوں میں اپنی زندگی کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔ شاید یہی غزل کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔شاہد ماہلی کی غزلوں سے متاثر ہوکر شمیم حنفی کہتے ہیں’’شاہد کی غزلوں میں روایت شناسی اور نوکلاسیکیت کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعات، تجربات، اسلوب بیان اور زبان،سب کی سطح پر وہ اسی شریعت کے پابند رہتے ہیں۔ نئی حسیت اور بصیرت کے اظہار کی صورتیں ،اسی لیے ان کی غزل کے کم شعروں میں نمودار ہوئی ہیں‘‘۔چند اشعار پیش ہیں۔
اک آنچ تھی کہ جس سے سلگتا رہا وجودشعلہ سا جاگ اٹھّے وہ شدت نہیں ملی
کچھ دور ہم بھی ساتھ چلے تھے کہ یوں ہوا
کچھ مسئلوں پہ ان سے طبیعت نہیں ملی
تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر
مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا
وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ
یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا
اگر شاہد ماہلی کی نظموں کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ براہ راست ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو قاری کے دل میں سیدھے اتر جاتا ہے۔منظر پس منظر،لوگ دھیرے دھیرے اپنے دروازے کھول رہے ہیں،ایک لمحہ،عجیب لوگ،کرفیو اور واپسی کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ شاہد ماہلی قاری کے سامنے اپنی بات کس شدت کے ساتھ رکھتے ہیں اس کا اندازہ ان کی ایک مختصر سی نظم ’اندیشہ ‘سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے۔
دور تک الفاظ کا پھیلا ہے زہرچہار سو مفہوم و معنی کے مکاں
شاہراہیں ہیں خیال و فکر کی
کوچۂ فہم و شعور
ہے یہ اندیشہ
کسی دن پھٹ نہ جائے
میرے سینے کا کوئی
آتش فشاں
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے بقول شمس الرحمن فاروقی’’تجربے کی انفرادیت اور احساس کی ندرت سے بھرا ہوا یہ مجموعہ آج کل کے مجموعوں کی بھیڑ میں نمایاں نظر آتا ہے‘‘۔
Thursday, February 10, 2011
Subscribe to:
Posts (Atom)