Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Friday, April 22, 2011

Tabsara on maulana muhammad ali jauhar taqseem award ki 22 sala rudad(mujalla)

نام کتاب    :    مولانا محمد علی جوہرتقسیم ایوارڈ کی22سالہ روداد(مجلہ)
زیر اہتمام    :    مولانا محمد علی جوہراکیڈمی ،دہلی
صفحات    :    260
قیمت    :    درج نہیں
ملنے کا پتہ    :    ایم سلیم،ایچ136،نیو سیلم پور، دہلی
تبصرہ نگار    :   فرمان چودھری
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا آزاد ہندوستان کی بدقسمتی کہ آج ہم نے مولانا محمد علی جوہر ؔجیسے عظیم مجاہد آزادی کو یکسر فراموش کردیاہے۔ آج کی نوجوان نسل مولانا کے بارے میں صرف اتنا جانتی ہے کہ مولانا ایک شاعر تھے، جبکہ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے جدوجہد کی۔1930میں جب مولانا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے لندن تشریف لے گئے تو انہوں نے وہاں انگریزوں سے دو ٹوک کہا کہ یا تو مجھے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ دو یا پھر قبر کے لیے دو گز زمین۔ کیوں کہ میںغلام ہندوستان میںواپس جانے سے آزاد انگلستان میں مرنا بہتر سمجھتاہوں۔بالآخر مولانا نے اپنے اس قول کو سچ ثابت کرکے دکھایا۔اس کے باوجود آزاد ہندوستان کی تمام سرکاریں مولاناکو نظر انداز کرتی رہیں۔لیکن کچھ ایسے جیالے بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض کے ،بغیر کسی حکومتی امداد کے وطن کے ان سپوتوں کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں، جن کی قربانیوں کے بدلے میں ہم آج آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک جیالے کا نام ایم سلیم ہے، جس نے 1974 میں مولانا کے آبائی وطن رامپور میں مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی قائم کی اورجب ذاتی وجوہات سے دہلی تشریف لے آئے تو جوہر اکیڈمی کو بھی دہلی منتقل کردیا۔ایم سلیم تب سے لیکرآج تک اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
زیر نظر مجلہ میں ان ایوارڈ کی تفصیلات ہیں جو مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی کے ذریعہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کوہر سال دئے جاتے ہیں۔ 1989سے شروع ہوا ایوارڈ دینے کا یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی ان 22سالوںمیں ملک کی135 نامور شخصیات کو ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔جوہر اکیڈمی نے اب تک جن لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا ہے، ان کے شخصی خاکہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ایم سلیم نے اپنی صحافتی صلاحیت سے تحریر کرکے اس مجلہ میں شامل کئے ہیں۔
مجلہ کی ابتدا میں فصیح اکملؔ قادری کی نعت ہے۔اس کے بعد اکیڈمی کے قیام کی رودادہے، جس کے بعد مولانا جوہرؔکی منتخب غزلیں ’کلام جوہر‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہیں۔مجلہ میں مولانا جوہر اور ان کی والدہ کے حوالے سے کئی مضامین بھی ہیں۔ان میںڈاکٹر ظہیر علی صدیقی کا’آبادی بیگم،بی اماں‘فضل حق عظیم آبادی کا’ بی اماں‘وصی احمد نعمانی کا’ ہندوستان کا جیالا سپوت محمد علی جوہر‘جلال الدین اسلم کا ’مولانا محمد علی جوہر‘طالب رامپوری کا’ مولانا محمد علی جوہر اور قومی یکجہتی‘ایم سلیم کا ’مولانا محمد علی جوہر ایک انقلابی رہنما‘ڈاکٹر شمیم احمد کا’مولانا محمد علی جوہر ایک عظیم مجاہد آزادی‘اورضیاء الرحمٰن غوثی کا’قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا محمد علی جوہر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ گول میز کانفرنس ، لندن میں کی گئی مولانا کی تاریخی تقریر کو بھی شامل اشاعت کرکے مجلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مجلہ میں ڈاکٹر گلزار دہلوی، آل احمد سروراور ڈاکٹر شوق اثری کی مولانا کو منظوم خراج عقیدت بھی ہے۔ آل احمد سرور کی منظوم خراج عقیدت کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے۔
با طل کے سامنے نہ جھکا جو تمام عمر
ہندوستاں تجھے وہ قلندر بھی یاد ہے
بجلی تھا جس کا ذہن، نظر تیغ تیز تھی
آئینہ حرم کا وہ جوہر بھی یاد ہے
جوہر اکیڈمی نے2010سے مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں کے نام پر بھی بی اماں ایوارڈ شروع کیا ہے۔پہلا ایوارڈ محترمہ کامنا پرساد کو ان کی اردو خدمات کے لیے دیا گیاہے۔امید کی جانی چاہئے کہ مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی اسی طرح مولانا کی یاد کو برادران وطن کے گوش گزار کراتی رہے گی۔

Saturday, April 16, 2011

Tabsara on Ameer Khusro (musical opera)

نام کتاب    :    امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)
مصنف    :    فصیح اکملؔ
صفحات    :                 94
قیمت    :     100روپے
ملنے کا پتہ    :    ایم آر پبلی کیشنز ،پٹودی ہاؤس،
دریاگنج ،نئی دہلی
تبصرہ نگار    :   
فرمان چودھری
فصیح اکمل ؔقادری کا نام دنیائے اردو میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔آپ روایت شکن کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مستند اور عہد ساز نثر نگار ہیں۔آپ کے فنی جوہر نظم اور نثر دونوں میں یکساں طور پر نظر آتے ہیں۔موصوف کی تازہ تصنیف امیر خسروؒ(میوزیکل اوپیرا)نہایت ہی قابل قدر کتاب ہے، جس سے حضرت امیر خسروؒ کے حالات و کوائف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔فصیح اکملؔ حضرت امیر خسروؒ سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں۔اور عقیدت بھی کیوں نہ ہو، جب بزرگان دین سے عقیدت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا سید انوار حسین قادریؒ جید عالم دین اور آستانۂ حضرت فخر عالم قادریؒ کے صاحب سجادہ تھے، جن کانسبی سلسلہ حضرت غوث اعظم علیہ الرحمتہ سے ملتا ہے۔
حضرت امیر خسرو ؒ پر لکھے گئے اس میوزیکل اوپیرا سے مصنف کے صوفیانہ مزاج کی تصدیق ہوتی ہے۔زیر نظر کتاب کو مصنف نے تین ایکٹ میں تقسیم کیا ہے اور ہر ایکٹ میں سات سات مناظر ہیں۔ ایکٹ اور مناظر کی اس تعداد سے بھی مصنف کے صوفیانہ مزاج کی وضاحت ہوتی ہے۔بہر حال فصیح اکمل اس کتاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں جہاں دیگر پریشانیوں سے دو چار ہوئے وہیں حضرت امیر خسرو ؒسے متعلق تاریخی حوالوں میں تضاد سے بھی انہیں کافی دشواری ہوئی۔اس لیے اپنے پیش لفظ میں صاحب کتاب نے شاعرانہ تخیل کے سہارے پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے’’کسی ایک شخصیت کو تاریخ کے الجھے ہوئے اوراق سے صاف کرکے نکالنا اور اس کے نقوش کو واضح کرکے دیکھنا اور دکھانا ان تاریخی اصنام کی گرد جھاڑ کر پھر سے سجانا ہے جن پر صدیوں کی گرد ہی نہیں حادثات کی ضرباتِ شدید بھی اثر انداز ہوئی ہیں،اس کے علاوہ ایک ایسے معاشرہ اور ماحول کو زندہ کرکے دیکھنا پڑتا ہے جس کا اب ہلکا سا عکس بھی باقی نہیں ہے‘‘۔
امیر خسروؒ( میوزیکل اوپیرا) میں فصیح اکمل نے حضرت امیر خسرو ؒکی فارسی غزلوں، اشعار اور قطعات کا اردو داں حضرات کے لیے آسان اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ فصیح اکملؔ نے منظوم ترجمہ میں حضرت امیر خسروؒ کے شعری لب و لہجے اور آہنگ کا بھر پور خیال رکھا ہے، جو مصنف کے قادر الکلام شاعر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دوسرے ایکٹ کے تیسرے منظر میں درج خسروؒ کی فارسی غزل ’’ابرمی باردومن می شوم از یار جدا‘‘کا منظوم ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
موسم گل میں بھی ہے مجھ سے مرا یار جدا
ہو سکوں کیسے کہ جب دل سے ہے دلدار جدا
بھری برسات میں یہ عالم رخصت دیکھو
میں جدا گر یہ کناں ابر جدا یار جدا
سبزۂ گل پہ جوانی ہے مگر ہائے نصیب
بلبل زار سے ایسے میں ہے گلزار جدا
میں تو اک عمر رہا تھا تری زلفوں کا اسیر
کس طرح تونے اچانک کیا اے یار جدا
حسن کا اس کے ازل سے ہوں محافظ خسروؔ
پھول سے رہ نہیں سکتا ہے کبھی خار جدا
خسروؒ کے فارسی کلام کے منظوم ترجمہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فصیح اکملؔ یوں رقمطراز ہیں’’ایک دشواری یہ تھی کہ حضرت امیر خسروؒکے کلام کا مسئلہ کس طرح حل ہوکیوں کہ بیشتر کلام فارسی میں ہے، میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ہندی کا کلام جو مرجع ِخلائق ہو چکا ہے اور جس کو اب تک سیکڑوں گانے والے طرح طرح سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، اس کو اسی طرح رکھا جائے اور فارسی کلام کی جہاں ضرورت ہو وہاں آسان اردو میں غزل یا قطعہ یا نظم کے ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا جائے‘‘۔
کتاب کا سر ورق،طباعت اور کاغذعمدہ ہے  لیکن کچھ پروف کی غلطیاں گراں گزرتی ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب امیر خسروؒ کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گی اور اردو دنیا اس کا پرجوش استقبال کرے گی۔

Monday, April 11, 2011

Interview with Rahat Saeed Sb.


شاعر و فنکار امن کے پیامبر ہوتے ہیں: راحت سعید

فیض صدی2011کمیٹی پاکستان کے سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری راحت سعید صاحب ہندوستان میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے گزشتہ دنوں دہلی میں تشریف لائے تھے۔اس موقع پر انہوں نے چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے سینئر نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو کی۔پیش ہیں قارئین کے لیے گفتگو کے اہم اقتباسات۔
سوال:آپ کا ادبی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟

جواب:بچپن میں ہماری ماں،پھوپھیاں اور بزرگ ہم کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔بس تبھی سے سفر شروع ہوا۔اس کے بعد کوئی وقت ہم کو ایسا یاد نہیں جب ہم کلاس میں پڑھتے ہوں اور کہانیاں نہ پڑھتے ہوں۔اس کے بعد شاعری نہ پڑھتے ہوں۔مجھے یاد ہے کہ میرے والد شروع سے ہی مولانا روم اور اقبال کی مثنویاں سنایا کرتے تھے۔بعد میں جب ذہن بالغ ہوا تو ادب پڑھنا شروع کیااور تب سے اب تک ادب پڑھ رہا ہوں۔میں ہمیشہ سے ادب کا طالب علم رہا ہوں۔میرا کام بنیادی طور پر سماجی علوم کے حوالے سے ہے۔میں شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی میں کہانی کار ہوں۔لکھنے کی کوششیں کیں لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ اچھا شعر نہیں کہہ سکتے تو شاعری کرنا کار زیاں ہے۔اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ہمیں اچھے لوگ، اچھے کام اور اچھے شعر یاد رہتے ہیں۔اچھے کام سے مراد ایسے کام ہیں جو انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ ہم اسی لیے انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہیں، کیونکہ اس کی اقدار انسانی اقدار ہیںاور محبت انسانی اقدار ہے۔اقدار تو بہت سی اقسام کی ہو سکتی ہیں،جو مثبت اقدار ہیں وہ آگے جانے والی ہیں اور وہی اقدار ترقی پسند اقدار ہیں۔منفی اقدار وہ ہیں جو تاریخ کو لوٹانا چاہتی ہیں۔چاہے وہ ڈھائی ہزار سال پرانی ہوں یا چودہ سو سال پرانی۔کچھ لوگ ہندوستان میں ایسے ہیں جو تاریخ کو ڈھائی ہزار سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاریخ کو چودہ سو سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں،یہ منفی سوچ ہے۔یہ سوچ انسانوں کی بہتری کے لیے نہیں ہے۔
سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین کے پاکستان میں کیا حالات ہیں؟

جواب: تقسیم کے زمانے تک تو انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوپاک کی ایک ہی تھی ،لیکن تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین بھی تقسیم ہو گئی۔یہ پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کہلائی۔یہ 1954تک کام کرتی رہی لیکنجب امریکہ سے معاہدے ہوئے ، اس کے بعد حکومت پاکستان نے اسے بائیں بازو کی سیاسی پارٹی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی۔پابندی کے بعد یہ دیگر ناموں سے اپنا کام کرتی رہی۔اس کے علاوہ جو دیگر تنظیمیں اس وقت ادب برائے ادب کے لیے کام کرر ہی تھیں،مثلاً حلقہ ارباب ذوق ،ان میں ترقی پسند شامل ہو گئے اور کام کرتے رہے۔اس کے بعد حلقہ ارباب ذوق لاہوربھی تقسیم ہوگئی۔حلقہ ارباب ذوق ادبی اور حلقہ ارباب ذوق سیاسی۔2006میں سجاد ظہیر صدی تقریبات منعقد کی گئیں۔ارتقا ادبی فورم کے ذریعہ ہم نے ادب کا بھی کام کیا۔ ادبی سمینار بھی کئے۔ہم نے سب سے پہلا سمینار سید احتشام حسین پر1993میں کیاتھا ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار پرتقریباً400صفحات پر مشتمل ایک ضخیم نمبر بھی ہم نے شائع کیا تھا۔اس کے بعد جوش ملیح آبادی ، مخدوم محی الدین اور فراق گورکھپوری پر سمینار کئے اور ان کے اوپر خصوصی نمبر نکالے۔ جن کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی۔آپ تعجب کریں گے کہ ٹینا ساہنی نے ایک پوری شام فراق کو گایا۔ابھی تو فیض صدی چل رہی ہے لیکن اگلے سال مجاز صدی کی تقریبات ہوں گی۔اسی سال اکتوبر میں مجاز کا یوم پیدائش ہے۔یہ طے ہوا تھا کہ ہم اکتوبر میں مجاز پر ایک سمینار کریں گے لیکن چونکہ سارا زوراس وقت فیض پر ہے اس لیے مجاز کی تقریب دب کر رہ جائے گی ۔اسی لیے یہ طے ہوا کہ مجاز کی تقریبات اگلے سال ہوں گی۔
سوال:آپ کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟

جواب:بلا شبہ فیض۔اس کے علاوہ مجاز اور ساحر۔ہمارے یہاں دو اور شاعر بھی اہم ہیں ۔ایک جان ایلیا اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ہمارے یہاں ایسے بھی شاعر ہیں جو صرف پاکستان کے شاعر نہیں کہلاتے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بھی کہلاتے ہیں۔
سوال:پاکستان کے ادیب و فنکار ہندوستا ن بہت آتے ہیں لیکن ہندوستان کے ادیب اور فنکار پاکستان کم جاتے ہیں۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے ایسا بالکل نہیں ہے۔ہندوستان کے ادیب و فنکار پاکستان بہت جاتے ہیں۔ہاں یہ تعداد ہندوستان آنے والے پاکستانیوں کے برابر نہیں ہو سکتی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بازار کا اثرزندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب اور فن پر بھی پڑاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسیقی اتنی زیادہ رائج نہیں ہے جتنی ہندوستان میں۔
سوال:ادیب و فنکار امن اور دوستی بڑھانے میں کتناکام کرتے ہیں؟

جواب:دیکھئے ادیب، شاعر اور فنکار ہی امن اور دوستی کی بات کرتے ہیں۔سیاست دانوں کا کام ہے تفریق کرنا اور ادیبوں کا کام ہے جوڑنا۔میں ایک تنظیم’’قلم و فن برائے امن‘‘ کا کنوینر ہوں ، جو بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی ہے۔ہمارے ایک 50رکنی وفد کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے اسی حوالے سے دعوت دی تھی۔میں آپ کو ایک خاص بتاتا ہوں کہ اگر کوئی سیاست داں جوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے دل میں کہیں نہ کہیں ادیب چھپا ہوا ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی ہے جو سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔اسی لیے انہوں نے ہمیشہ امن او راتحاد کی بات کی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاست داں جو ادب سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں وہ بھی جوڑنے کی سیاست کرتے ہیں۔
سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے ساتھ ساتھ کیا آپ کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ ہیں؟

جواب:ہمارے یہاں کئی کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔لیکن میں ذاتی طور پر کسی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہیں ہوں۔جہاں تک سوچ کا سوال ہے تو وہ میں کمیونسٹ سوچ ہی رکھتا ہوں۔کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ اگر ہم کسی ایک پارٹی میں شامل ہو جائیں گے تو دوسری پارٹی والے انجمن کو اسی نظریہ سے دیکھیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ صرف تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان بلکہ سبھی ترقی پسند پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا پلیٹ فارم ایک ہی رہنا چاہئے۔اسی لیے میں کسی ایک کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہ ہوکر سب سے وابستہ ہوں۔
سوال:ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اردو کا کیسا مستقبل ہے؟

جواب:مجھے یہ لگتا ہے کہ جو اردو کے نام پر کام کررہے ہیںوہ صحیح ڈھنگ سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہے ہیں۔مجھے یہ لگتا ہے کہ جو لوگ خادم اردو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنی نوکریاں اور اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں۔میرے خیال سے ان لوگوں اور اداروں کو مزید سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جو لوگ یہاں عام بول چال میں ہندی بولتے ہیں دراصل وہ اردو ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2005میں جب میں یہاں ہندوستان آیا تھا توایک ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں لوگ اتنی اچھی ہندی بولتے ہیں۔میں نے کہا کہ ہاں پاکستان میں لوگ اتنی ہی اچھی ہندی بولتے ہیں جتنی کہ تم اردو بول ہے ہو۔
سوال:آپ کس طرح کے پروگرام کراتے ہیں؟

جواب:پاکستان میں ہماری 27شاخیں ہیں جہاں مختلف قسم کے پروگرام کرائے جاتے ہیں۔جیسے مشاعرہ، مذاکرہ ،شعری نشست اور سمینار وغیرہ۔کراچی میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ مہینے میں کم سے کم ایک مرتبہ ایک گیسٹ لیکچر اور ایک شعری نشست ضرور کریں گے۔نومبر میں ہم عالمگیر پیمانے پر اسلام آباد ، کراچی اور لاہورمیںپروگرام کرتے ہیں۔
سوال:فیض صدی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟

جواب:جب 2006میں ہم سجاد ظہیر صدی تقریبات منا رہے تھے تو اس میں ہندوستان کا ایک وفد پاکستان گیا ہوا تھا۔اسی وقت یہ طے ہوا کہ ہم 2011میں پوری شان و شوکت کے ساتھ فیض صدی منائیں گے۔فیض صدی تقریبات منانے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے شدت پسندانہ ماحول میں فیض کے نظریات کو عام کیا جائے گا۔تاکہ پاکستان کے مظلوموں اور مجبوروں کی آواز کو بلند کیا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں صرف شدت پسند ہی نہیں رہتے ہیں بلکہ پاکستان میں فیض کے حامی بھی رہتے ہیں جو شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین پہلے سے ہی فیض صدی منانے کے لیے تیار تھی۔

Ghalib academy mein munaqid mushaira mein kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hein janab nusrat gwaliyari, janab wiqar manvi, janab shehbaz nadeem ziyai aur mohtarma salma shaheen


Saturday, April 9, 2011

Tabsara on Nau Bahar

نام کتاب    :    نو بہار(شعری مجموعہ)
مصنف    :    اطہرؔ سہارنپوری
ضخامت    :    155صفحات
قیمت    :    150روپے
ملنے کا پتہ    :    محمد انجم،گلی نمبر45جعفرآباد، دہلی
تبصرہ نگار    :      فرمان چودھری
اردو کی جملہ اصناف ادب میں شاعری ایک ایسی صنف ہے جس میں مسلسل فکری کاوشیں جاری ہیں۔ خاص طور پر غزل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید جوان ہوتی جارہی ہے۔اردو شاعری ادب کی ایسی صنف ہے جو عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے۔اردو شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب کی دیگر اصناف میں جہاں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیں شاعری میں روز نئے نئے مجموعے شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کررہے ہیں۔حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ غزل کے علاوہ شاعری کی دیگر اصناف مثلاًمرثیہ،مثنوی اور قصیدہ میںنہ کے برابر طبع آزمائی ہور ہی ہے۔
بہر حال اطہر سہارنپوری کا پہلا شعری مجموعہ ’’نو بہار‘‘2009میں منظر عام پر آیا۔مجموعہ میں دونظموں اور چند قطعات کے علاوہ سبھی غزلیں ہیں۔اطہر سہارنپوری کی یہ غزلیں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔اس کی وجہ شاید ان کی سادگی ہے۔ موصوف اپنے اشعار میں اپنی بات کو بات بڑی سادگی سے کہہ جاتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
تصورات کی وادی میں گھومتا ہوں سدا
مری نظر میں نئے دور کا اجالا ہے
بن گیا زر سے تو میدان ادب کا ہیرو
میرے اشعار سے بھاری تری دولت ہی رہی
دیکھ کر جس کو نکلتی تھیں دعائیں دل سے
کس کو معلوم تھا اک دن وہی قاتل ہوگا
اطہر سہارنپوری محبت کے شاعر ہیں۔اپنے اشعار میں وہ جا بجا انسان دوستی، امن عالم اور مساوات کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں فکر کی گہرائی تمام تر رعنائیوں سے ساتھ موجود ہے۔ مندرجہ دو اشعار ان کے اسی شعری رویہ کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں۔
مجرم ہوں اگر جرم کا احساس دلا دو
منہ پھیر کے تم یوں نہ تغافل کی سزا دو
واقف ہے اگر عشق کے انجام سے کوئی
اس کو تو دماغی یہ خلل ہو نہیں سکتا
اطہر سہارنپوری کی شاعری پر اپنے مختصر مضمون میں ایم آر قاسمی فرماتے ہیں کہ اطہر سہارنپوری کا ملازمت پیشہ گھریلو ماحول سے نکل کر دہلی جیسے شہر کو اپنے مستقبل کا مسکن بنانا اور زندگی کے نئے رویوں کو شعری تخیلات و جذ بات میں ڈھالناانتہائی چونکا دینے والا عمل ہے۔اطہر سہارنپوری کا یہ شعری عمل در اصل ایک اندرونی احتجاج ہے ان فرسودہ اور نام نہاد اکائیوں کے خلاف جن پر وقت، سماج، دوستی، تعلق،خلوص اور پیارکی دریدہ بدن تختیاں لگی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آتش نوائی سے احتراز کے باوجود محبتوں کی روایتی تہذیب سے عبارت ہے۔
اطہر سہارنپوری زندگی سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں،اس مشاہدہ اور تجربہ کو اپنے شعروں کے ذریعہ بڑی خوبصورتی سے واپس کردیتے ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعارحاضر ہیں ۔
اہل جہاں نے مجھ کو تماشہ سمجھ لیا
لے آئی یہ کہاں سے کہاں بے خودی مجھے
افضل نہیں ہے کوئی بھی ہم سے جہان میں
کچھ لوگ عمر بھر ہی رہے اس گمان میں
بویا تھا جو تم نے وہی تم کاٹ رہے ہو
کڑوے پہ تو میٹھا کوئی پھل ہو نہیں سکتا
گھائل اسی کو کر دیا جس پر نظر پڑی
ابروئے چشم ہی تری تیرو کمان ہے
اطہر سہارنپوری کا شعری مجموعہ ’نو بہار‘ اپنے سر ورق کے لحاظ سے بھی بیحد خوبصورت ہے۔امید ہے کہ ادبی حلقوں میںمجموعہ کو پذیرائی ملے گی۔

Thursday, April 7, 2011

Interview with Tahir Bizenjo Sb.

پاکستانی عوام بھی جمہوریت نواز ہیں: طاہر بزنجو

پاکستان ہندوستان کا نہ صرف پڑوسی ملک ہے بلکہ چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔ تاہم کچھ مفاد پرست سیاستداں ان دو نوں بھائیوں کو کبھی ملنے نہیں دیتے۔دونوں اطراف کے عوام ایک دوسرے سے مل جل کر پیار محبت سے رہنا چاہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تئیں جذباتی لگأو بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہیں۔ وہاں نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ گورنر و وفاقی وزیر۔یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کچھ اسی طرح کے سلگتے سوالات پر گزشتہ دنوں چوتھی دنیا کے سینئر نامہ نگار نوازش مہدی اور  فرمان چودھری نے پاکستان کی ’’نیشنل پارٹی‘‘ کے جنرل سکریٹری  طاہر بزنجو صاحب سے طویل گفتگو کی۔ طاہر بزنجو صاحب گزشتہ دنوں فیضؔ صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے ہندوستان کے دورے پر تھے۔
سوال:آئینی طور پر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، لیکن وہاں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے یہ راز کی بات تو نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی نشونما کا موقع نہیں دیا گیا۔60کی دہائی کے اواخر میں ہی جنرل ایوب اقتدار میں آگئے اور تقریباً10برسوں تک اقتدار پر قابض رہے۔اس کے بعدمختصر مدت کے لیے جمہوریت آئی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد پانچ سال تک جمہوری دور چلتا رہا۔اس کے بعد فوج نے پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر گیارہ سال تک ضیاء الحق صاحب اقتدار میں رہے۔ اس کے بعد جو لنگڑی لولی جمہوریت ہمارے یہاں چلتی رہی اس کو بھی یکے بعد دیگرے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ایسی صورتحال میں سیاست اس طرح نہیں چل سکتی جس طرح چلنی چاہئے۔آج اگر ہم ہندوستان کے حالات دیکھیں ، یہاں الیکشن کمیشن کی مضبوطی کو دیکھیں تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں حالات چاہے کچھ رہے ہوں لیکن جمہوری عمل کبھی ڈسٹرب نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں شروع سے ہی آمروں کا قبضہ رہا ہے، جو پاکستان کی بڑی بدنصیبی ہے،لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کے حامی نہیں ہیں بلکہ عوام دوسرے ممالک کی طرح ہی جمہوریت کے حامی ہیں۔انہوں نے کبھی بھی ڈکٹیٹروں کے آگے خود سپردگی نہیں کی۔یہ ایک اچھی بات ہے۔آج جو حالات ہیں وہ 60اور70کی دہائی سے بالکل مختلف ہیں۔آج دنیا جہان میں جمہوریت کو پذیرائی مل رہی ہے۔
سوال:آپ ہندوستان کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں؟

جواب: ہم ہندوستان فیضؔ صدی کی مناسبت سے آئے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فیض صاحب جمہوریت کے علمبردار تھے۔ اس کے لیے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔وہ ہمیشہ جمہوریت کی آواز بلند کرتے رہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان میں جمہوری عمل جتنا مضبوط ہوگا ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ جب جب پاکستان میں جمہوریت رہی ہے تب تب ہمارے تعلقات ہندوستان سے بہتر رہے ہیں۔
سوال:ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کو جمہوریت راس نہیں آتی ہے۔وہاں ڈکٹیٹر شپ ہی کامیاب ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب:ہر ایک کا اپنا ذہنی معیار ہے۔ ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے، لیکن میں یہاں پر کہوں گا کہ پاکستان اور ڈکٹیٹر شپ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔پاکستان کو جتنی بھی مشکلات برداشت کرنی پڑی ہیں اور جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس کی اصل وجہ عدم جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ ہی ہے۔پاکستان دنیا سے الگ کوئی خلامیں نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک حصہ ہے، اس لیے پاکستان کے عوام بھی اسی طرح جمہوریت کے حامی ہیں جس طرح باقی دنیا کے اور عدم جمہوریت اسی طرح پاکستا ن کے لیے نقصاندہ ہے جس طرح باقی دنیا کے لیے ہو سکتی ہے۔
سوال:پاکستان میں ایسے کون سے عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حالات ہمیشہ ہی دھماکہ خیز رہتے ہیں؟

جواب: پاکستان آج جس صورتحال سے دوچار ہے ۔ظاہر ہے یہ صورتحال راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئی ہے۔جو بڑی اور زور آور قوتیں ہوتی ہیں وہ ہر جگہ اپنے مفادات تلاش کر لیتی ہیں۔مثال کے طور پر افغانستان میں جو حالات ہیں اس کے لیے امریکہ پوری طرح ذمہ دار ہے اور اس کی اصل وجہ امریکی مفادات ہیں لیکن اس نے پاکستان کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کیوں کہ پاکستان کے ڈکٹیٹروں کے اپنے مفادات امریکہ سے وابستہ تھے۔ورنہ یہ ظلم ہرگز نہیں ہو پاتا۔دوسری طرف امریکہ ہندوستان کو پاکستا ن سے اور پاکستان کو ہندوستان سے مسلسل ڈراتا رہتا ہے۔میرا ماننا یہ ہے کہ چلئے پاکستان تو امریکہ کا ساتھ اس لیے دیتا ہے کیوں کہ اس کو امریکہ سالانہ امداد دیتا ہے لیکن ہندوستان تو اپنے آپ میں ایک بڑی طاقت ہے پھر اس نے امریکہ کے دباؤ میں آکر کیوں ہند- ایران- پاکستان گیس پائپ لائن سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ان حالات سے پاکستان اور افغانستان ہی دوچار نہیں ہیں بلکہ امریکہ خودبھی بھگت رہاہے۔وہاں کی معیشت پر اس کے بہت گہرے اثرات پڑے ہیں۔یہ جو دنیا میں دہشت گردی کا بول بالا ہے اس کی یہی وجہ ہے۔ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں،کیونکہ نفرت اور عداوت سے بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے،لیکن سیاست اپنے مفاد کی خاطر دونوں ملکوں کے عوام کو ملنے نہیں دیتی۔
سوال:ابھی آپ نے کہا کہ ہند اور پاک دونوں ملکوں کے عوام ملنا چاہتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دوریاں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں؟

جواب: یقیناًاس کے لیے دونوں اطراف کے حکمراں طبقے ذمہ دارہیں۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے ، میں گزشتہ دو ہفتہ قبل لکھنؤ اور حیدرآباد گیا تھا ۔میں نے وہاں کے عوام، دانشوروں اور طلبہ سے گفتگو کی ، تو میں نے محسوس کیا کہ یہاں کے عوام کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اور اسی طرح میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام بھی ہندوستانیوں سے نفرت نہیں کرتے ہیںبلکہ محبت کرتے ہیں۔نفرت کی اصل وجہ سیاست ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب مرنے کے بعد بھی دونوں ملکوں کو ملانے کا کام کررہے ہیں کیوں کہ فیض صاحب کو جتنا پسند پاکستان میں کیا جاتاہے ہندوستان میں بھی اس سے کم انہیں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ فیض صاحب کے بارے میں اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہندوستان میں فیض صدی کی تقریبات کا آغاز صدر جمہوریہ ہند نے کیا ہے۔تو فیض صاحب دونوں ملکوں کے عوام کو ملانے کی بنیاد بن سکتے ہیں اور یہ صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔اگر ہم باہم دست و گریباں رہے تو پھر دیگر اقوام کے دباؤ میں رہیں گے۔ ہمیں علاقائی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔آج گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ کوئی بھی عمل اچھا ہو یا برا ہو ، ہم اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم ماضی کے اسباق سے سبق حاصل کریں اور خطہ کے امن و استحکام کے لیے کام کریں۔
سوال: گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کا قتل کیا پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دھبہ نہیں ہے۔ جب وہاںایک گورنر کی زندگی تک محفوظ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کس طرح اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوگا؟ پاکستانی حکومت اس صورتحال پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟

جواب: دیکھئے حکومت اپنے طور پر تو کوشش کر رہی ہے۔اس طرح کے حالات جن سے پاکستان اس وقت دو چار ہے یہ راتوں رات تو پیدا نہیں ہوئے ہیں۔جن کو امریکہ آج دہشت گرد کہتا ہے، کل تو اس کے منظور نظر وہی لوگ تھے۔پاکستان کے سیاست داں پرو امریکن ہیں جبکہ وہاں کے عوام امریکہ کے مخالف ہیں۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کے حالات تشویشناک ہیں ۔سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کا قتل واقعی افسوسناک تھا۔ یہ دو افرا دکا قتل نہیں بلکہ جمہوریت اور ملک کے آئین کا قتل تھا۔ان کے جیسے لیڈر راتوں رات پیدا نہیں ہوتے بلکہ ایک لمبے عرصے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔انشاء اللہ پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوں گے۔
سوال:عوامی حلقوں میںایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہاہے کہ ایک بار پھر پاکستان کی جمہوری حکومت کاتختہ پلٹ کر فوج اقتدار میں آجائے گی،کیونکہ جمہوری حکومت قانون کے نفاذ میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔آپ کو کیا لگتا ہے؟

جواب: خدشات کی بات تو میں نہیں کروں گا ، لیکن پاکستان کی جو تاریخ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے امکان کو یکسر مستردبھی نہیں کیا جا سکتا ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بغیر امریکی حمایت کے کوئی بھی ڈکٹیٹر ابھی تک پاکستان میں نہ آیا ہے اور آئے گا بھی نہیں۔آج دنیا کے جو حالات ہیں بالخصوص اسلامی دنیا کے ایسے میں لگتا ہے کہ امریکہ کسی پاکستانی ڈکٹیٹر کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے گا،لیکن پھر بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سوال:پاکستانی پارلیمنٹ میں آپ کی پارٹی کی کیا پوزیشن ہے؟

جواب:دیکھئے گزشتہ الیکشن میں بہت ساری پارٹیوں کی طرح ہماری پارٹی نے بھی الیکشن میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ مشرف صاحب کے رہتے ہوئے الیکشن غیر جانب دار نہیں ہو سکتا۔
سوال:اس وقت دنیا بھر میں اہانت رسول کا قانون موضوع بحث بنا ہوا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سارے بے قصور اس قانون کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔اس قانون کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

جواب:ہم تو یہی کہنا چاہیں گے کہ سزا دینے کاکام عدالت کا ہے۔بجائے اس کے کہ اپنی رائے مسلط کی جائے، عدالت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔
سوال:اب عالمی کپ کرکٹ کا زمانہ ہے۔دونوں ممالک میں کرکٹ بے پناہ مقبول ہے۔کیا کرکٹ بھی دونوں ممالک کے عوام کو ملانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

جواب:دو قسم کے تماشائی ہوتے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو کھیل کو کھیل کی طرح لیتے ہیں۔دوسرے قسم کے لوگ اپنی ٹیم سے جذباتی طور پر وابستہ ہوتے ہیں۔یہ صورتحال دونوں ہی ممالک میں ہے۔ابھی تو دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات تعطل کا شکار ہیں لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ ہوتا تھا اس وقت پاکستان کی ٹیم کو ہندوستان میں اور ہندوستان کی ٹیم کو پاکستان میں بہت عزت ملتی تھی۔میرا ماننا ہے کہ سچن جیسینامور کھلاڑی کرکٹ کے ذریعہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،کیوں کہ جب کرکٹ ہوگا تو آنا جانا بھی ہوگا اور تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

Tabsara on (Iqbal aur allahabad)

نام کتاب    :    اقبال اور الہ آباد
مصنف    :    علی احمد فاطمی
ضخامت    :    240صفحات
قیمت    :    250روپے
ملنے کا پتہ    :    بادارۂ نیا سفر،مرزا غالب روڈ، الہ آباد
تبصرہ نگار    :      فرمان چودھری

علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایسے عظیم شاعرہیں جنہوں نے اپنی شاعری میںفکر اور فلسفہ پیش کیا۔ ان کے فن اور فلسفے پر اب تک ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسی سلسلے کے تحت عصر حاضر کے ممتاز ترقی پسند نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی کی تازہ تصنیف’’اقبال اور الہ آباد‘‘ سلسلۂ اقبالیات میںنیا اورخوشگواراضافہ ہے۔ موصوف نے اس تصنیف میںاپنے 11مضامین اور اقبالیات پر چند نئی کتابوں پرکئے گئے اپنے تبصروں کو یکجا کیا ہے۔’اقبال اور الہ آباد ‘ اس کتاب کا پہلا مضمون ہے اور اسی کی مناسبت سے انہوں نے اپنی کتاب کا عنوان بھی’ اقبال اور الہ آباد‘ رکھا ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ جس طرح مرزا غالب اور میر انیس کے دورۂ الہ آباد کی تفصیلات نہیں ملتیں ، اسی طرح اقبال کے دورۂ الہ آباد کی تفصیلات پربھی دھندپڑنے کاخطرہ تھا۔ اپنے دوسرے مضمون’ علامہ اقبال کا خطبۂ الہ آباد:ایک تجزیہ ‘میں موصوف نے علامہ کے اس خطبہ کا جائزہ لیاہے جو علامہ نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے ایک جلسہ میں 1930میںدیا تھا۔ اسی خطبہ کو بنیاد بناکر بعض لوگ علامہ کو نظریۂ پاکستان کا بانی بھی کہتے ہیں، لیکن فاطمی صاحب نے مذکورہ خطبہ کا عالمانہ تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ علامہ تقسیم ہند کے حامی نہیں تھے اور انہوں نے کسی الگ ملک یا ریاست کا مطالبہ بھی نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے ہندوستان کے اندر مسلم ریاست کی خواہش کی تھی۔وہ لکھتے ہیں’’علامہ اقبال نے یہ خواہش کسی علیحدگی پسندی کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے تشخص کے ساتھ ساتھ آئے دن ہونے والے ہندو مسلم کے درمیان کے واقعات کے تحفظ کے تحت بھی سوچی تھی۔وہ آئے دن کے ٹکراؤ اور بڑھتی ہوئی نفرت کا کوئی مستقل حل چاہتے تھے۔وہ مسلمان اور ہندوستان دونوں کے لیے فکر مند تھے۔ …..اقبال کو صرف جز کی نہیں کل کی فکر تھی۔صرف مسلمانوں کی نہیں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں کی فکر تھی جسے کچھ لوگ ایک خاص رنگ، مذہب اور قانون میں ڈھال دینا چاہتے تھے‘‘۔
زیر نظر کتاب کے دوسرے مضامین’ اقبال کی عصری معنویت‘ ’ اقبال کی آفاقیت پر چند باتیں‘ اور’ اقبال کی مقامیت پر چند باتیں‘ایسے مضامین ہیں جن سے قاری کے ذہن کی گرہ کھلتی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اقبال کی جتنی اہمیت بیسویں صدی میں تھی، ان کی عصری معنویت بھی اس سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ ان کی شاعری نے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا کام کیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو شاعر اسلام بھی کہا جاتا ہے ، لیکن مصنف کا اس بات پر زور دینا حق بجانب ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کو محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ ایک آفاقی شاعر ہیں اور ان کا ایک ایک مصرعہ درد انسانیت سے پر ہے۔مصنف کے دیگر مضامین ’آل احمد سرور کی اقبال شناسی‘’ محمد علی صدیقی: بحیثیت اقبال شناس‘’ اقبال کی نظم:والدہ مرحومہ کی یاد میں‘’ لینن خدا کے حضور میں:تجزیہ‘’ اقبال اور سردار کے فکری و تخلیقی رشتے‘اور’ علامہ اقبال پر فراق کا ایک مضمون‘ بھی قابل قدر ہیں۔ مصنف نے اپنے مضامین کا سلسلہ علی سردار جعفری کے ان جملوں پر ختم کیاہے’’اقبال مسلم بیداری کے شاعر تھے،  اس میں ایشیائی بیداری بھی شامل ہے۔ اقبال ہندوستان کی بیداری کے شاعر تھے، اس میں پوری تحریک آزادی شامل ہے۔ اقبال عالم انسانیت کی بیداری کے شاعر تھے، اس میں اشتراکیت کی فتح ، کارل مارکس اور لینن کے افکار کی عظمت شامل ہے۔ اقبال کی دوسری یاتیسری حیثیت ان کی پہلی حیثیت کی تردید نہیں کرتی بلکہ میرے نزدیک اس کی توثیق اور توسیع کرتی ہے کیوں کہ ہندوستان اور ایشیا کی مسلم بیداری ، عالم انسانیت کی بیداری کا ایک حصہ ہے۔ اقبال صحیح معنوں میں عالمی شاعر تھے‘‘۔
آخر میں مصنف نے’اقبال پرچند نئی کتابیں‘ کے عنوان سے اقبال:شاعر رنگیں نوا(پروفیسر عبدالحق)چوں مرگ آید(ڈاکٹر تقی عابدی)اقبال:عرفان کی آواز(پروفیسر بشیر احمد نحوی)اقبال اور سوشلزم(ڈاکٹر نذیر احمد شیخ)جہان اقبال(پروفیسر توقیر احمد خاں)اورمحافظ ملت:علامہ اقبال(ابراہیم اشک)جیسی کتابوںکا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ چند یادگار تصاویر بھی کتاب کی زینت ہیں۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ موصوف نے خود کے یا کتاب کے بارے میں کوئی مضمون یاجملہ شائع نہیں کیا ہے۔