Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Friday, January 21, 2011

Tabsara on mazameen e taza


نام کتاب    :    مضامین تازہ
مصنف    :    ڈاکٹر مظفر حنفی
ضخامت    :    168صفحات
ملنے کا پتہ    :موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،دریا گنج،نئی دہلی
تبصرہ نگار    : فرمان چودھری

 اردو  دنیا کے مشہور شاعر،افسانہ نگار،مترجم،محقق اور نقادپروفیسر مظفر حنفی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔آپ تقریباً 6دہائیوں سے اردو ادب کی مختلف اصناف میں آبیاری کر رہے ہیں۔ ان کی کئی مرتّبہ کتابیں اور تنقیدی تحریریں سامنے آکر مقبول ہوچکی ہیں۔مظفر حنفی حالانکہ بنیادی طور پر شاعر ہیں مگر اس کے باوجودانہوں نے کئی ایسے تنقیدی اور تحقیقی کارنامے انجام دئے ہیںجن سے ان کے مطالعے کی وسعت اور نظر کی گہرائی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔زیر نظر کتاب ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کاتازہ مجموعہ ہے،جس میں انہوں نے مختلف النوع قسم کے 21مضامین کو شامل کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مشہور شاعرڈاکٹر راشد عزیز کے ساتھ اپنے ایک طویل انٹرویو کو بھی انہوں نے شامل اشاعت کر دیا ہے۔
پروفیسر مظفر حنفی کے مضامین کو پڑھنے کے بعد ایک خاص قسم کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔مضامین کی فہرست سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مظفر حنفی نے اپنے اس تازہ مجموعے میں تازگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف ادوار کی مختلف شخصیات کو کسی گلدستہ کے ترو تازہ پھولوں کی شکل میں پیش کردیا ہے۔مضامین کو پڑھ کر قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے مجموعہ کا نام ’مضامین تازہ‘ کیوں رکھا ہے۔ان کے شخصی مضامین ’میرا جی:شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات‘ ،’باتیں کوثر چاندپوری کی‘،’عینی اور اردو فکشن‘،’دوگز زمین ظفر کے لیے‘،’کچھ دلیپ سنگھ کے بارے میں‘ اور ’محبوب راہی کے نام‘ وغیرہ ہیں۔ان مضامین میں صاحب کتاب نے مذکورہ شخصیات کے ادبی کارناموں کا بھرپور احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس مجموعہ میں کچھ تحقیقی مضامین بھی شامل کئے ہیں۔مثلاً’عورت کی آزادی اور تعلیم نسواں کے تئیںاقبال کا رویہ‘،’ہندوستان کی تحریک آزادی میں خواتین کا حصہ‘ اور’ آزادی کے بعدمدھیہ پردیش میںاردو تنقید و تحقیق کا منظرنامہ‘ وغیرہ ۔
’عورت کی آزادی اور تعلیم نسواں کے تئیں اقبال کا رویہ‘ میں رقمطراز ہیں۔’’اقبال کے نزدیک عورت ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کے مترادف ہے جسے بوالہوسوں کی نظر بد سے بچائے رکھنے کی ضرورت ہے۔اسی لیے وہ بھی اکبر الہ آبادی اور اس عہد کے دیگر کئی دانشوروں کی طرح اسے شمع محفل کی بجائے ’چراغ خانہ‘ کی حیثیت سے زیادہ قابل قدر سمجھتے تھے۔مغربی تہذیب کی رو میں بہہ کر مشرقی عورت کا جلوت پسند ہو جانا اقبال کو نا پسند تھا۔عورتوں کی تعلیم و ترقی کے دوش بدوش ان کی اخلاقی تربیت کو بھی اقبال اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے‘‘۔
’میں اور میراادبی سفر‘ اور’ رو میں ہے رخش عمر‘  یہ دونوں مضامین پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے ادبی سفر اور نجی زندگی کے بارے میں لکھے ہیں۔اول الذکر مضمون میں فرماتے ہیں’’افکار اور اظہار دونوں اعتبار سے میں نے اپنی راہ دوسروں سے الگ ہٹ کر نکالنے کی سعی کی ہے۔اسی لیے کسی مخصوص سیاسی نظریے یا طرز فکر کے ہاتھ پربیعت نہیں کی اور کلاسیکی روایات،ترقی پسندانہ مقصدیت،صحت مندجدید رجحانات سبھی کے لیے میری شاعری کے دریچے کھلے رہے ہیں۔کسی نے مجھے ترقی پسند کہا تو کوئی مجھے جدید شاعروں میں شمار کرتا رہا لیکن مجھے اپنی تخلیقی آزادی اتنی عزیز تھی کہ کسی بھی مکتب فکر سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا اور نتیجے میں ہر دبستان تنقید نے مجھے باہری آدمی تصور کیا۔سچ ہے آزادی کسی بھی نوع کی ہو ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔‘‘
امید کی جا نی چاہئے کہ جس طرح پروفیسر مظفر حنفی کی دیگر تحریریں ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ،اسی طرح ’مضامین تازہ‘کی بھی پذیرائی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment