Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Friday, January 21, 2011

chauthi duniya urdu weekly news paper mein published Farman Chaudhary ka Mazmoon

حضرت محمدﷺ تاریخ انسانی کے عظیم جنرل

فرمان چودھری
آخری نبی حضرت محمدؐ کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ بہترین داعی، عظیم مفکر، ایماندار تاجر،عدل و انصاف کے علمبردار،سحر انگیز خطیب اور اعلیٰ قائد کے ساتھ تاریخ انسانی کے عظیم جرنیل بھی تھے۔
آپؐ نے نبوت ملنے کے بعد جیسے ہی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیافوراً ہی لوگ آپ کے مخالف ہو گئے۔مجبور ہوکر آپؐ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی۔ہجرت کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ معلوم ہوا کہ مکہ کے قریش آپ ؐپر حملہ کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔اس وقت رسول اکرم ؐ کے سامنے دو متبادل تھے۔ ایک یہ کہ مدینے کے قریب سے مکہ والوں کا تجارتی قافلہ گزر رہا تھا، اس پر حملہ بول کر مال غنیمت حاصل کیا جائے۔دوسرا یہ کہ دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ آپؐ ایسے وقت میں قافلے کی بجائے بہترین جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی فوج سے نبرد آزما ہوئے اور اس جنگ میں ان تمام حکمت عملیوں کا مظاہرہ کیا، جن کی ایک تجربہ کار سپہ سالار سے امید کی جا سکتی ہے۔آپؐ  نے سب سے پہلے بدر کے قریب واقع پانی کے ذخیرے پر قبضہ کیا، جو اس وقت کی سب سے اہم جنگی چال سمجھی جاتی تھی اور ایسا کہا جاتا تھا کہ اگر دشمن کو پانی سے محروم کر دیا تو آدھی جنگ جیت لی۔اس کے بعد آپؐ نے اپنی کم وسائل اور محدود تعداد والی فوج کو تربیت دی اور اپنے لیے ایک اونچے ٹیلے پر خیمہ نصب کرایا۔پوری جنگ میں آپؐ اسی ٹیلے سے فوج کی قیادت کرتے رہے اور دکھا دیا کہ اگر کسی فوج کو کمانڈر اچھا مل جائے تو کم وسائل اور محدود تعداد کے باوجود جنگ جیتی جا سکتی ہے۔یہ جنگ جو بدر کے مقام پر لڑی گئی تھی کے متعلق آج بھی دنیا محو حیرت ہے کہ کس طرح313کی تعداد سے آپؐ نے 1400کی فوج کو بد ترین شکست دی۔اس پر بھی ستم یہ کہ 313کے پاس صرف 70اونٹ اور 3 گھوڑے تھے، جبکہ مخالف کے پاس جدید ہتھیار اور وافر مقدار میں اونٹ اور گھوڑے تھے۔
جنگ بدر میں قریش شکست کھا کر بھاگ گئے ،لیکن پھر اگلے ہی سال پہلے کے مقابلے زیادہ طاقت کے ساتھ آئے۔جواب میں اللہ کے رسولؐ نے بھی مقابلے کے لیے ایک ہزار کے لشکر کو مدینے سے باہر نکالا، لیکن عین وقت پر منافق عبد اللہ بن ابی اپنے300منافقوں کو لیکر واپس آ گیا۔اب محمدؐ کی قیادت میں صرف 700فوجی تھے اور جواب میںکئی ہزار جنونی، لیکن ایسے وقت میں بھی اس جلیل القدر کمانڈر نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی فوج کو میدان احد میں لے گیا۔اس عظیم جرنیل نے ایک بار پھر اپنی سپہ سالارانہ قیادت کا مظاہرہ کیا اور طاقتور دشمن کو شکست دی، لیکن جب کچھ وجوہات کی بنا پر وہ50آدمی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکے جنہیں در ہ پر بٹھایا گیا تھا تو جنگ کا نقشہ بدل گیا اور مسلمان دشمن پر غالب آنے کے بجائے مغلوب ہونے لگے۔ایسے وقت میں بھی اس عظیم جرنیل نے بکھری ہوئی فوج کی قیادت کی اور دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔جب دشمن بھاگ گیا تو اس فوج کو آرام کرنا چاہئے تھا، لیکن اس عظیم جرنیل کو پتہ تھاکہ دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔ دور جدید کے ماہرین جنگ بھی محمدؐ کی جنگی بصیرت کے قائل ہو جاتے ہیں کہ کمزوری کی حالت میں بھی انھوں نے دشمن کا تعاقب کیااور نہ صرف تعاقب کیا بلکہ مدینہ سے 8میل دور جہاں تک تعاقب کیا وہاں تین روز تک قیام بھی کیا اور ان تین روز کی راتیں اس طرح گزاریں کہ ہر مسلمان رات میں الگ الگ آگ روشن کرتا، اس طرح میدان میں قریب 500مقامات پر آگ روشن کی گئی اور یہ آگ میلوں دور سے نظر آتی۔اس آگ کو روشن کرنے میں محمدؐ کی ایک یہ حکمت عملی پوشیدہ تھی کہ جو بھی دیکھے اسے محسوس ہو جائے کہ مسلمانوں کا لشکر چھوٹا موٹا نہیں بلکہ لشکر جرار ہے اور محمدؐ اس حکمت عملی میں کامیاب بھی ہوئے۔نہ صرف مکہ اور مدینہ بلکہ پورے عرب میں یہ شہرہ ہو گیا کہ مسلمانوں نے دشمن کا تعاقب کیا تھا اور مسلمانوں کا لشکر بہت طاقتور ہے،اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔یہ حکمت عملیاں اللہ کے رسول نے ایسے وقت میں کیں جبکہ آپؐ  تھک کر چور ہیں۔ اگر مسلمانوں کو نقصان ہوا تو وہ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے محمدؐ کی جنگی تدبیروں پر عمل کرنے میں کوتاہی برتی تھی، ورنہ جنگ احد کا نتیجہ بھی جنگ بدر سے کچھ الگ نہ ہوتا۔
جنگ احد کی ناکامی سے تلملائے دشمن نے آخری اور فیصلہ کن معرکہ کے لیے مدینے کا رخ کیا۔جب دشمن مدینے کی سرحد کے قریب آیاتو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ مدینہ میں داخل ہونے اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے اسے 6کلو میٹر لمبی5میٹر چوڑی اور5میٹر گہری خندق کو عبور کرنا تھا۔اس پر رسول اللہ کی یہ تدبیر کہ مسلمانوں کو تیر و کمان کے ساتھ خندق سے کچھ دوری پر بٹھا دیا۔اس طرح دشمن کے جس فرد نے بھی خندق عبور کرنے کی کوشش کی وہ زندہ نہیں بچا۔نتیجتاً دشمن فوج کو خندق کے دوسری جانب ہی رکنا پڑا اور ایک رات ایسی آندھی آئی کہ دشمن کو بھاری نقصان اٹھاکر وہاں سے بھاگنا پڑا۔تاریخ میں یہ واقعہ جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے۔
جنگ خندق کے بعد مسلمان مطمئن ہو گئے کہ اب دشمن ان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر پائے گا، لیکن محمدؐ نے اس بار مسلمانوں کو دشمن پر جوابی حملہ کا حکم دیا۔آپؐ دس ہزار جاںنثاروں کے ساتھ مکہ کی جانب چل پڑے اور مکہ سے پہلے ہی ایک میدان میں پڑائو ڈالا۔اس میدان میں بھی حکمت کے تحت الگ الگ آگ جلائی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب کے تمام قبائل پر مسلمانوں کی ہیبت طاری ہو گئی اور اگلے دن مسلمان کسی مزاحمت کے بغیر شہر میں داخل ہو گئے۔بالآخر بغیر کسی قتل و غارت گری کے تاریخ انسانی کے عظیم سپہ سالار کے ذریعہ عظیم فتح یعنی فتح مکہ حاصل ہوئی اور یہ عظیم فتح تاریخ میں امر ہوگئی۔
اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ محمدؐ ایک کامیاب اور باصلاحیت کمانڈر بھی تھے، جن کی قیادت میں مسلمانوں نے کم تعداد اور قلیل وسائل کے باوجود جنگ بدر، جنگ احداور جنگ خندق میں دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور جب خود پیش قدمی کی تو دشمن کے ٹھاٹ باٹ آپ کے قدموں میں تھے۔

chauthi duniya urdu weekly news paper mein published Farman Chaudhary ki Nazm


chauthi duniya urdu weekly news paper mein published Farman Chaudhary ki naat-e-Rasool(saw)


Tabsara on mazameen e taza


نام کتاب    :    مضامین تازہ
مصنف    :    ڈاکٹر مظفر حنفی
ضخامت    :    168صفحات
ملنے کا پتہ    :موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،دریا گنج،نئی دہلی
تبصرہ نگار    : فرمان چودھری

 اردو  دنیا کے مشہور شاعر،افسانہ نگار،مترجم،محقق اور نقادپروفیسر مظفر حنفی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔آپ تقریباً 6دہائیوں سے اردو ادب کی مختلف اصناف میں آبیاری کر رہے ہیں۔ ان کی کئی مرتّبہ کتابیں اور تنقیدی تحریریں سامنے آکر مقبول ہوچکی ہیں۔مظفر حنفی حالانکہ بنیادی طور پر شاعر ہیں مگر اس کے باوجودانہوں نے کئی ایسے تنقیدی اور تحقیقی کارنامے انجام دئے ہیںجن سے ان کے مطالعے کی وسعت اور نظر کی گہرائی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔زیر نظر کتاب ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کاتازہ مجموعہ ہے،جس میں انہوں نے مختلف النوع قسم کے 21مضامین کو شامل کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مشہور شاعرڈاکٹر راشد عزیز کے ساتھ اپنے ایک طویل انٹرویو کو بھی انہوں نے شامل اشاعت کر دیا ہے۔
پروفیسر مظفر حنفی کے مضامین کو پڑھنے کے بعد ایک خاص قسم کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔مضامین کی فہرست سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مظفر حنفی نے اپنے اس تازہ مجموعے میں تازگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف ادوار کی مختلف شخصیات کو کسی گلدستہ کے ترو تازہ پھولوں کی شکل میں پیش کردیا ہے۔مضامین کو پڑھ کر قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے مجموعہ کا نام ’مضامین تازہ‘ کیوں رکھا ہے۔ان کے شخصی مضامین ’میرا جی:شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات‘ ،’باتیں کوثر چاندپوری کی‘،’عینی اور اردو فکشن‘،’دوگز زمین ظفر کے لیے‘،’کچھ دلیپ سنگھ کے بارے میں‘ اور ’محبوب راہی کے نام‘ وغیرہ ہیں۔ان مضامین میں صاحب کتاب نے مذکورہ شخصیات کے ادبی کارناموں کا بھرپور احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس مجموعہ میں کچھ تحقیقی مضامین بھی شامل کئے ہیں۔مثلاً’عورت کی آزادی اور تعلیم نسواں کے تئیںاقبال کا رویہ‘،’ہندوستان کی تحریک آزادی میں خواتین کا حصہ‘ اور’ آزادی کے بعدمدھیہ پردیش میںاردو تنقید و تحقیق کا منظرنامہ‘ وغیرہ ۔
’عورت کی آزادی اور تعلیم نسواں کے تئیں اقبال کا رویہ‘ میں رقمطراز ہیں۔’’اقبال کے نزدیک عورت ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کے مترادف ہے جسے بوالہوسوں کی نظر بد سے بچائے رکھنے کی ضرورت ہے۔اسی لیے وہ بھی اکبر الہ آبادی اور اس عہد کے دیگر کئی دانشوروں کی طرح اسے شمع محفل کی بجائے ’چراغ خانہ‘ کی حیثیت سے زیادہ قابل قدر سمجھتے تھے۔مغربی تہذیب کی رو میں بہہ کر مشرقی عورت کا جلوت پسند ہو جانا اقبال کو نا پسند تھا۔عورتوں کی تعلیم و ترقی کے دوش بدوش ان کی اخلاقی تربیت کو بھی اقبال اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے‘‘۔
’میں اور میراادبی سفر‘ اور’ رو میں ہے رخش عمر‘  یہ دونوں مضامین پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے ادبی سفر اور نجی زندگی کے بارے میں لکھے ہیں۔اول الذکر مضمون میں فرماتے ہیں’’افکار اور اظہار دونوں اعتبار سے میں نے اپنی راہ دوسروں سے الگ ہٹ کر نکالنے کی سعی کی ہے۔اسی لیے کسی مخصوص سیاسی نظریے یا طرز فکر کے ہاتھ پربیعت نہیں کی اور کلاسیکی روایات،ترقی پسندانہ مقصدیت،صحت مندجدید رجحانات سبھی کے لیے میری شاعری کے دریچے کھلے رہے ہیں۔کسی نے مجھے ترقی پسند کہا تو کوئی مجھے جدید شاعروں میں شمار کرتا رہا لیکن مجھے اپنی تخلیقی آزادی اتنی عزیز تھی کہ کسی بھی مکتب فکر سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا اور نتیجے میں ہر دبستان تنقید نے مجھے باہری آدمی تصور کیا۔سچ ہے آزادی کسی بھی نوع کی ہو ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔‘‘
امید کی جا نی چاہئے کہ جس طرح پروفیسر مظفر حنفی کی دیگر تحریریں ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ،اسی طرح ’مضامین تازہ‘کی بھی پذیرائی ہوگی۔

Thursday, January 6, 2011

Gaza Peace Caravan: a ray of hope for Palestine

Farman Chaudhary

 


Israel’s policies in West Bank and other districts are depriving Palestinians of basic necessities thereby making them victim of violence and bloodshed. The airstrikes by Israeli warplanes is nothing unusual. The economic blockade has added to the miseries especially of women, children and new borns. The bitter truth is that the people of  Gaza are suffering.
Around 21 organisations like Oxfam, Amnesty International and others gives the same kind of reports. The Human Rights organizations in Palestine have been apprising of its deteriorating condition. On the other hand international community is silent about it. Indeed, Palestinians are in dire need of help. Around 60 people gathered at Rajghat. The General Secretary of Akhil Bhartiya Congress and former central minister and parliamentarian,   Mani Shanker Aiyyar also participated in the meeting.
A peace Caravan was flagged off from Rajghat to Gaza. Perhaps for the first time such an ambitious caravan through land route has been planned to express solidarity with the Palestinian cause.
Digvijay Singh said that India has been an ardent supporter of independence of Palestine. However, the statement of  Mani Shanker Aiyyar was quite encouraging. He has been a supporter of Palestine movement.
He said that the situation has altogether taken a different turn. His candid statement is laudable. Despite the limitation of the governments in different countries of the world, the peace caravan received plethora of support.
In the Caravan of Pro Palestine Federation, Asian  People’s Solidarity for Palestine,  60 members from India, around 500 people participated from Pakistan ,Indonesia,  Malaysia, Japan,  Afghanistan,  Bangladesh,  Sri Lanka, Nepal, Iran, Iraq,  Sham ,Omaan,  Turkey, Lebanan and  Egyptian countries.
On 27th of December the peace caravan was about to reach Gaza as on this day marks the third anniversary of Gaza’s capture by Israel. The peace caravan had people from all walks of life, like   film directors, actors, journalists, intellectuals and Human Rights workers. In India around 80 organisations supported the caravan which includes social service institutions, liberal organizations,  religious organisations, students, journalists and  social workers.
The original plan of Caravan organizers was to take a land route from Asia to Gaza by crossing Wagah border on 2nd of December. From Lahore to Karachi to Quetta, Iran, Turkey, Syria, Jordan, Lebanon then from Egypt to  Gaza.
Pakistan refused to give visa to members of Indian peace caravan considering security reasons. Later the visa was accepted till Lahore but for only 29 members out of 60. Rest  of the visas were refused by Pakistan High Commission. Pakistan’s action was intriguing. Was it under pressure of America and Israel?  Or else Pakistan considers the people in Caravan as threat to their security.
The Pakistan High Commision has been giving assurance of support to the peace caravan. It was even said that if the members of caravan come at 12 midnight they will be issued visas.
Despite such assurances the Pakistan High Commission clearly stated  on 1st December that it can’t provide protection to the members of Caravan. It indeed escalated skepticism towards the government of Pakistan.
When  29 members of Peace caravan  reached Wagah border. They were shocked to know that the officials at Wagah  had  no clue regarding Peace Caravan.
A massive protest was demonstrated on both sides of the border. Later when the members of Caravan were returning from Punjab to Delhi at 9 in the night received information that they can cross the border tomorrow.
Indeed the 29 Indian  members crossed Wagah  border where dozens of Pakistanis welcomed them. A huge ceremony at Wagah border took place. Later all members went to Lahore,  stayed there for 2 days and went back to their homelands.  From there they took a flight to Iran.
Prior the departure of Peace Caravan to Gaza, various demonstrations, film seminars and processions were organized to  manifest the pain and difficulties of Palestinians.
After coming back from   Gaza the members of Caravan will organize conferences in 15 big cities to enthuse a spirit of brotherhood and peace among the masses and the government of India. Just the way Mahatama Gandhi, Jawahar Lal Nehru and Indira Gandhi supported them.
Be it in any corner of the world, India has always been an ardent supporter of  independence movement. Mahatama Gandhi used to say that Palestine is of  Palestinians as  Turkey is of Turkish people, Iran of Iranians   and Hindustan of Hindustanis.  Despite the obstacles the caravan got immense support.
It manifest that the government of India, Pakistan and Israel is apprehensive about the caravan. It seems that all eyes are stuck on   Peace Caravan. Would it be able to reach Gaza?
Will Israel allow the Peace caravan to enter Gaza or will it be stopped like  Freedom Flotilla? Of course, any obstruction  will be  problematic for India.   Suffice to say that  the success of peace caravan will prove to be a milestone in history of friendship and brotherhood between India and Palestine.

Pakistani actress Mira ke sath Farman Chaudhary







Monday, January 3, 2011

فلسطینیوں کا دکھ درد بانٹنے نکلا ایشیا کا پہلا امن کارواں

 






فرمان چودھری
اسرائیل کی پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں ،جنہیں شاید اسرائیل اور فلسطین کا مطلب تک نہیں معلوم ہے۔تازہ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل کے ہوائی حملوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لوگوں کو روزمرہ کی ضروریات کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ دوائیوں کا ہے۔اقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔مرنے والوں میںبچے ہیں، بوڑھے ہیں اورخواتین ہیں۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی صورتحال انتہائی دکھ بھری ہے۔
آکسفیم ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سیو دی چلڈرن  جیسی 21تنظیموں کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے۔فلسطین میں کام کررہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں وہاں کی بد حالی کے بارے میں مسلسل  بتا رہی ہیں ،پھر بھی عالمی برادری نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے لوگ صاف پانی،بجلی اور روز گار کے لیے ترس رہے ہیں۔فلسطین کے عوام کو مدد کی ضرورت ہے ۔
فلسطین کے انہی مجبور و مظلوم لوگوں سے اظہار یکجہتی کرنے اور ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہونے کے لیے گزشتہ دنوںفلسطین کی حمایت میں غزہ کے لیے ایک امن کارواں با با ئے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ سے غزہ کے لیے روانہ ہوا ۔غزہ روانہ ہونے سے قبل 60رکنی کارواں کے اراکین اور فلسطینی کاز کے حامی دیگر لوگوں نے راج گھاٹ پر ایک میٹنگ کی، جس میں آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اور سابق مرکزی وزیر اور ممبرپارلیمنٹ منی شنکر ایئر نے بھی شرکت کی۔ ان دونوں لیڈروں نے اس پروگرام میں نہ صرف شرکت کی بلکہ کارواں کے تئیں اپنی ہمدردی اور فلسطینی کاز میں اپنی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ دگ وجے سنگھ نے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین کی تحریک آزادی کا حامی رہا ہے اور آج بھی ہم جد و جہد آزادی کی پرامن تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔لیکن سابق مرکزی وزیر منی شنکر ائیر نے جو کہا وہ چونکانے والا ہے۔ وہ شروعات  سے ہی فلسطینی تحریک کے حامی رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کرتا آیا ہے۔ حالانکہ آج صورت حال کافی مختلف ہے اور پالیسی میں کافی تبدیلی آئی ہے جو افسوسناک ہے۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ملک کی بر سر اقتدار جماعت کے لیڈر اگر یہ بات کہہ رہے ہیں تو اس میں شک کی گنجائش نہیں بچتی ہے۔منی شنکر ائیر کی صاف گوئی کے لیے ان کی تعریف ہونی چاہئے کیوں کہ حکومت کی مجبوریوں کے درمیان انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مظلوم فلسطینیوں کو آزادی اور انصاف دلانے کے لیے ثابت قدم ہو کر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیںلیکن اس کارواں کو الگ الگ ممالک کے عوام اور تنظیموں کی حمایت ضرور حاصل ہے۔فلسطینی حامی تنظیم ’ایشین پیپلز سولیڈیرٹی فار پیلسٹائن‘ کے زیر اہتمام اس کارواں میں ہندوستان کے60اراکین کے  علاوہ پاکستان، انڈونیشیا، ملیشیا، جاپان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ایران، عراق، شام، عمان، ترکی، لبنان اور مصر سے تقریباً 500افراد نے شرکت کی۔ اس امن کارواں نے غزہ میں داخل ہونے کے لیے 27دسمبر کی تاریخ متعین کی، کیوں کہ اسی تاریخ کو اسرائیل کے ذریعہ غزہ کے محاصرے کے تین برس مکمل ہوجائیںگے۔
امن کارواں میں دانشور، فلمساز، ایکٹر، صحافی، حقوق انسانی کے کارکن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لوگ شامل ہوئے۔ کارواں کوایشیا کی سینکڑوں تنظیموں اور جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔اکیلے ہندوستان سے تقریباً 80تنظیموں اور افراد نے اس کارواں کی حمایت کا اعلان کیا۔ جن میں سوشلسٹ آرگنائزیشن ،لبرل آرگنائزیشن، مذہبی تنظیمیں ،طلبا ، صحافی اور ورکرس شامل ہیں۔ان میں سے کچھ تنظیموں کے نمائندے کارواں کے ساتھ گئے جبکہ کچھ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ ناگپور سے سماجی کارکن سریش کھیرنار ، میگسیسے ایوارڈ ونرسندیپ پانڈے ، صحافی اجیت ساہی اور ملی گزٹ کے چیف ایڈیٹرڈاکٹر ظفرالاسلام خان جیسے لوگ امن کارواں میں شریک ہوئے ۔ اس کارواں میں پورے ملک کے ہر طبقہ کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اس کارواں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان سمیت تمام ایشیائی ممالک کے ذریعہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے باوجود کوئی کارواں آج تک اس سے پہلے ایشیا سے نہیں گیا۔یورپ سے بڑے بڑے کارواں گئے اور جا رہے ہیں۔ترکی سے اسی سال فریڈم فلوٹیلا نامی ایک کارواں غزہ کے لیے گیا تھا جس میں غذائی اجناس،دوائیں اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات کی اشیا تھیں اور اس میں دنیا بھر کے تقریباً 300لوگ سوار تھے۔وہ غزہ جانا چاہتے تھے، لیکن بیچ راستے میں بین الاقوامی سمندر میں اس پراسرائیلی کمانڈوز  نے حملہ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں 9رضاکار جاں بحق اور 50سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ باقی لوگوں کو اسرائیلی سپاہیوں نے گرفتار کرلیا تھا اور اس جہاز کو مع سامان اٹھاکر لے گئے تھے۔ حالانکہ بعد میں وہ جہاز اسرائیل نے آزاد کردیا تھا۔اب یہ جہاز مرمت کے بعد 26دسمبر کو مصر کی سرحد پر ایک بڑے جلسے کے بعد دوبارہ غزہ روانہ کیا جائے گا۔
ایشیا سے غزہ روانہ ہونے والے امن کارواں کو 2دسمبر کو واگھہ سرحد پیدل عبور کر کے پاکستان جانا تھا، جہاں لاہور پہنچ کر، کراچی اور کوئٹہ ہوتے ہوئے ایران، ترکی، سیریا، جارڈن، لبنان اور پھر مصر کے راستے غزہ میں داخل ہونے کا پروگرام تھا۔ لیکن امن کارواں کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب سیکورٹی کو خطرہ بتا کر پاکستان نے ہندوستانی امن کارواں کے اراکین کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔ بعد میں کی گئی کوششوں کے بعد پاکستان نے صرف لاہور تک کا ویزا جاری کیا، وہ بھی 60میں سے صرف 29اراکین کو۔ باقی اراکین کا ویزا پاکستان ہائی کمیشن نے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے رد کردیا۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان نے ایسا کیوں کیا؟کیا پاکستان نے امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ میں آکر ایسا کیا؟ یا پھر حقیقتاً حکومت پاکستان کو ایسا لگتا ہے کہ امن کے اس کارواں میں شامل لوگ پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔پاکستان  کے اس رویہ کی وجہ وہاں کے افسر ہی بتا سکتے ہیں۔ حالانکہ پاکستانی ہائی کمیشن شروع سے ہی امن کارواں کے اراکین کو یہ یقین دہانی کراتا رہا کہ ہماری حکومت اس کارواں کی حمایت کرتی ہے اور اگر کارواں کے اراکین رات کے 12بجے بھی آئیںگے تو بھی انہیں ویزے جاری کردئے جائیںگے۔ اس کے باوجود یکم دسمبر کی شام کو امن کارواں کے اراکین کو بلا کر پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعہ یہ کہنا کہ حکومت پاکستان امن کارواں کے اراکین کو پاکستان میں تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ۔پاکستان کی حکومت کا یہ رویہ بھی شک پیدا کر تا ہے۔یہ لوگ امن کا پیغام لیکر فلسطینیوں کی مدد کرنے غزہ جا رہے ہیں۔اب کوئی حکومت ایسے لوگوں کو تحفظ دینے سے منع کردے تو اسے کیا مانا جائے۔ اس کے علاوہ پاکستانی ہائی کمیشن میں کارواں کے اراکین سے جو سوال کیے گئے، ان سے بھی پاکستان کی نیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعہ پوچھے گئے متعدد سوالات میں سے ایک یہ سوال بھی تھا کہ کیا پاکستانی صحافی مسٹر طلال بھی اس کارواں کے ساتھ غزہ جائیںگے۔ پاکستان کی اسرائیل نوازی اس سوال کے بعد پوری طرح کھل کر سامنے آگئی، کیوںکہ اسرائیلی ایجنڈے کے مطابق اسرائیل ہر اس شخص کو غزہ جانے سے روکتا ہے جو فریڈم فلوٹیلا میں شریک تھا ۔سوال یہ ہے کہ طلال کو اسرائیل غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے تو کوئی بات نہیں لیکن پاکستانی حکومت کے سامنے طلال کو روکنے کی کیا مجبوری تھی۔
غزہ جانے والے امن کارواں کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب کارواں کے 29اراکین واگھہ سرحد پر پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ واگھہ کے افسران کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کسی امن کارواں کو پیدل پاکستان جانے کی اجازت دی جائے۔ اس موقع پر امن کارواں کے ہندوستانی اور پاکستانی اراکین نے واگھہ سرحد کی دونوں جانب احتجاج کیا۔ اس کے بعد کارواں کے اراکین دہلی واپس آنے لگے تو پنجاب سے دہلی آتے ہوئے رات کو تقریباً 9بجے کارواں کو اطلاع ملی کہ وہ کل واگھہ سرحد پیدل عبور کرسکتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ہندوستانی حکومت کا وہ چہرہ سامنے آجاتا ہے، جس کا ذکر 2دسمبر کو مہاتما گاندھی کی سمادھی پر سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایئر نے کیا تھا کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کرتا آیا ہے۔ حالانکہ آج صورتحال کافی مختلف ہے اور پالیسی میں کافی تبدیلی آئی ہے ،جو افسوسناک ہے۔ یہ فلسطین کے تئیں ہندوستانی حکومت کی  پالیسی کا ہی شاخسانہ ہے ورنہ اگر کارواں کے ذریعہ ڈیڑھ مہینہ پہلے دی گئی درخواست کو رد کیا جاچکا تھا تو اس کی اطلاع امن کارواں کو کیوں نہیں دی گئی اور اگر درخواست کو قبول کرلیا گیا تھا تو پھر واگھہ سرحد پر اس کی اطلاع کیوں نہیں بھیجی گئی۔
بالآخر غزہ جانے والے ایشیائی امن کارواں کے 29ہندوستانی اراکین نے اگلے روز پیدل واگھہ سرحد عبور کی، جہاں پاکستان کے کئی درجن لوگوں نے ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ واگھہ سرحد پر ہی ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہندوستانی اراکین کارواں نے فلسطینی پرچم، پاکستانی اراکین کے سپرد کیا۔ جس کے بعد سبھی اراکین لاہور چلے گئے۔ لاہور میں 2دن قیام کے بعد ہندوستانی اراکین وطن واپس آگئے، جہاں سے وہ بذریعہ طیارہ ایران کے لیے روانہ ہوگئے۔
غزہ جانے والے ایشیائی امن کارواں کی روانگی سے قبل ان ممالک میں فلسطینیوں کے مصائب اور ان کی مشکلات اجاگر کرنے کے لیے فلم، سیمنار، دھرنے اور جلوسوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ کارواں جن شہروں اور ممالک سے گزرا، وہاں بڑے بڑے جلسے اور پبلک میٹنگیں کی گئیں۔ غزہ سے واپس آکر کارواں کے اراکین ہندوستان کے 15بڑے شہروں میں بڑی بڑی کانفرنس کریںگے تاکہ ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی عوام فلسطینی کاز کی اسی طرح حمایت کریں، جس طرح مہاتماگاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی نے کی تھی، کیوں کہ ہندوستانی حکومت کی پالیسی اور ہندوستانیوں کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں،ہندوستانی عوام اور ہندوستانی حکومتوں نے ان تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ اس لیے مہاتماگاندھی نے ایک بار کہا تھا۔ فلسطین اسی طرح فلسطینیوں کا ہے، جس طرح ترکی ترکیوں کا ہے، ایران ایرانیوں کا ہے اور ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے۔جس طرح سے  ہندوستان اور پاکستان میں اس کارواں کو عوام کی حمایت ملی، جس طرح سے افسران نے مشکلیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کارواں کے حوالے سے ہند،پاک اور اسرائیل کی سرکار یں پریشان ہیں۔اب سب کی نگاہیں امن کارواں پر ٹکی ہیں۔کیا یہ غزہ پہنچ پائے گا؟ کیا اسرائیل اسے غزہ میں داخل ہونے دے گا؟کیا اس کارواں کو بھی فریڈم فلوٹیلا کی طرح روکا جائے گا؟ اگر اس کارواں کو روکا جاتا ہے تو حکومت ہند کے لیے مشکلیں بڑھ جائیں گی اور اگر یہ کارواں غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہندوستان اور ایشا کے عوام کا پیغام پہنچاتا ہے تو ہندوستان اور فلسطین کے عوام کے درمیان دوستی او ربھائی چارے کی تاریخ میں یہ میل کا پتھر ثابت ہوگا۔

अमन कारवां : फिलिस्तीनियों का दु:ख-दर्द बांटने की कोशिश


इज़रायल की नीतियों की वजह से फिलिस्तीनी हिंसा का शिकार हो रहे हैं, जिन्हें शायद इज़रायल और फिलिस्तीन का मतलब पता नहीं है. ताज़ा स्थिति यह है कि इज़रायल के हवाई हमलों की वजह से फिलिस्तीन के लोगों को रोज़मर्रा की ज़रूरतों के लिए दर-दर की ठोकरें खानी पड़ रही हैं. सबसे बड़ी समस्या दवाइयों की है. आर्थिक नाकेबंदी की वजह से लोग मर रहे हैं. मरने वालों में नवजात बच्चे हैं, बूढ़े हैं और महिलाएं हैं. इज़रायल की ओर से ग़ज़ा की आर्थिक नाकेबंदी की वजह से ग़ज़ा की स्थिति बहुत कष्टदायी है. ऑक्सफेम, एमनेस्टी इंटरनेशनल और स्योदी चिल्ड्रन जैसे 21 संगठनों की रिपोर्ट भी यही कहती है. फिलिस्तीन में काम कर रहे मानवाधिकार संगठन वहां की बदहाली के बारे लगातार बता रहे हैं, फिर भी अंतरराष्ट्रीय समुदाय ने चुप्पी साध रखी है. यही वजह है कि फिलिस्तीन के लोग साफ़ पानी, बिजली और रोज़गार के लिए तरस रहे हैं. फिलिस्तीन की जनता को मदद की ज़रूरत है.
फ़िलिस्तीन के इन्हीं मजबूर और मज़लूम लोगों का दु:ख-दर्द बांटने अमन का एक कारवां राष्ट्रपिता महात्मा गांधी की समाधि राजघाट से ग़ज़ा के लिए रवाना हुआ. ग़ज़ा रवाना होने से पहले 60 लोगों ने राजघाट पर एक बैठक की, जिसमें अखिल भारतीय कांग्रेस के महासचिव दिग्विजय सिंह और पूर्व केंद्रीय मंत्री एवं सांसद मणि शंकर अय्यर ने भी शिरकत की. इन दोनों नेताओं ने इस कार्यक्रम में न स़िर्फ शिरकत की, बल्कि कारवां के प्रति सहानुभूति और समर्थन की घोषणा भी की. दिग्विजय सिंह ने कहा कि भारत हमेशा से फ़िलिस्तीन के स्वतंत्रता आंदोलन का समर्थक रहा है और आज भी. लेकिन पूर्व केंद्रीय मंत्री मणि शंकर अय्यर ने जो कहा, वह चौंकाने वाला है. वह शुरुआत से ही फिलिस्तीनी आंदोलन के समर्थक रहे हैं. उन्होंने कहा कि भारत हमेशा फ़िलिस्तीन का समर्थन करता आया है, लेकिन आज स्थिति काफ़ी अलग है और नीतियों में भी काफ़ी परिवर्तन आया है. ग़ौर करने वाली बात यह है कि देश के सत्तारूढ़ दल के नेता अगर यह बात कह रहे हैं तो इसमें शक़ की कोई गुंजाइश नहीं बचती है. मणि शंकर अय्यर की सा़फगोई के लिए उनकी तारी़फ होनी चाहिए, क्योंकि सरकार की मजबूरियों के बीच उन्होंने कहा कि हम सबको लाचार फ़िलिस्तीनियों को आज़ादी और न्याय दिलाने के लिए क़दम से क़दम मिलाकर उनका समर्थन करना चाहिए.
भारत से अमन का पैग़ाम लेकर एक कारवां इज़रायल पहुंचने वाला है. यह फिलिस्तीनियों के दु:ख-दर्द को बांटने और शांति का पैग़ाम लेकर वहां जा रहा है. इसमें देश की कई जानी-मानी हस्तियां शामिल हैं. यह कारवां ज़मीन के रास्ते पाकिस्तान और ईरान होते हुए इज़रायल पहुंच रहा है. डर इस बात का है कि अमन के इस कारवां का हश्र भी कहीं फ्रीडम फ्लोटिला की तरह न हो. भारत फिलिस्तीन का हिमायती रहा है, लेकिन अमन के इस कारवां को शुरुआत से ही कई मुश्किलों का सामना करना पड़ा है.
दुनिया भर की सरकारों की अपनी मजबूरी हो सकती है, लेकिन इस कारवां को अलग-अलग देशों की जनता और संगठनों का समर्थन ज़रूर हासिल है. फ़िलिस्तीन समर्थक संगठन एशियन पीपल्ज़ सोलीडेरिटी फॉर पिल्सटाइन के इस कारवां में भारत के 60 सदस्यों के अलावा पाकिस्तान, इंडोनेशिया, मलेशिया, जापान, अफ़ग़ानिस्तान, बांग्लादेश, श्रीलंका, नेपाल, ईरान, इराक, शाम, ओमान, तुर्की, लेबनान और मिस्र से लगभग 500 लोग शामिल हुए. इस अमन कारवां ने ग़ज़ा में दाख़िल होने के लिए 27 दिसंबर की तारीख निर्धारित की है, क्योंकि इसी दिन इज़रायल द्वारा ग़ज़ा की घेराबंदी के तीन साल पूरे हो जाएंगे. अमन कारवां में बुद्धिजीवी, फिल्म निर्माता, अभिनेता, पत्रकार, मानवाधिकार कार्यकर्ता और अन्य क्षेत्रों से जुड़े लोग शामिल हैं. कारवां को एशिया के सैकड़ों संगठनों और दलों का समर्थन प्राप्त है. अकेले भारत से ही लगभग 80 संगठनों ने इस कारवां के समर्थन की घोषणा की, जिनमें समाजसेवी संस्थाएं, उदारवादी संगठन, धार्मिक संगठन, विद्यार्थी, पत्रकार और सामाजिक कार्यकर्ता आदि शामिल हैं. इनमें से कुछ संगठनों के प्रतिनिधि कारवां के साथ गए, जबकि कुछ ने अपने समर्थन की घोषणा की. नागपुर से सामाजिक कार्यकर्ता सुरेश खैरनार, मैगसेसे अवार्ड से सम्मानित संदीप पांडेय, पत्रकार अजीत साही और मिली गज़ेट के प्रधान संपादक डॉक्टर ज़फ़र इल इस्लाम ख़ां जैसे लोग अमन कारवां में शरीक़ हुए. कारवां में पूरे देश के हर वर्ग के प्रतिनिधित्व की सफल कोशिश की गई. इसकी एक ख़ास बात यह भी है कि भारत समेत सभी एशियाई देशों द्वारा फ़िलिस्तीन से सहानुभूति प्रकट होने के बावजूद कोई कारवां आज तक इससे पहले नहीं गया. यूरोप से बड़े-बड़े कारवां गए और जा रहे हैं. तुर्की से इस साल फ्रीडम फ्लोेटिला नामक एक कारवां ग़ज़ा के लिए गया था, जिसमें अनाज, दवाएं और अन्य आवश्यक सामग्री थी और दुनिया भर के लगभग 300 लोग शामिल थे. यह ग़ज़ा जाना चाहता था, लेकिन बीच रास्ते में समुद्र में इस पर इज़रायली कमांडोज ने हमला कर दिया था, जिससे9 स्वयंसेवी मारे गए और 50 से अधिक घायल हो गए थे. बाक़ी लोगों को इज़रायली सिपाहियों ने गिरफ्तार कर लिया और इस जहाज़ को सामान समेत उठाकर ले गए. हालांकि बाद में वह जहाज़ इज़रायल ने आज़ाद कर दिया था. अब यह जहाज़ मरम्मत के बाद 26 दिसंबर को मिस्र की सीमा पर एक बड़े जलसे के बाद दोबारा ग़ज़ा रवाना किया जाएगा.
एशिया से ग़ज़ा रवाना होने वाले अमन कारवां को 2 दिसंबर को वाघा सीमा पैदल पार करके पाकिस्तान जाना था, जहां लाहौर पहुंच कर करांची और कोयटा होते हुए ईरान, तुर्की, सीरिया, जार्डन, लेबनान और फिर मिस्र के रास्ते ग़ज़ा में दाख़िल होने का कार्यक्रम था, लेकिन अमन कारवां को पहला झटका उस समय लगा, जब सुरक्षा को ख़तरा बताकर पाकिस्तान ने भारतीय अमन कारवां के सदस्यों को वीज़ा देने से इंकार कर दिया. बाद में पाकिस्तान ने स़िर्फ लाहौर तक का वीज़ा जारी किया, वह भी 60 में से स़िर्फ 29 सदस्यों को. बाक़ी सदस्यों का वीज़ा पाकिस्तान उच्चायोग ने बिना किसी ठोस कारणों के रद्द कर दिया. अब सवाल यह है कि पाकिस्तान ने ऐसा क्यों किया. क्या पाकिस्तान ने अमेरिका और इजरायल के दबाव में आकर ऐसा किया या फिर उसे सचमुच ऐसा लगता है कि कारवां में शामिल लोग उसकी सुरक्षा के लिए खतरा हैं. पाकिस्तान के इस रवैये की वजह वहां के अधिकारी ही बता सकते हैं. हालांकि पाकिस्तान उच्चायोग शुरू से ही अमन कारवां के सदस्यों को आश्वासन देता रहा है कि उसकी सरकार कारवां का समर्थन करती है और अगर कारवां के सदस्य रात के 12 बजे भी आएंगे तो भी उन्हें वीजा जारी कर दिए जाएंगे. इसके बावजूद एक दिसंबर की शाम को कारवां के सदस्यों को बुलाकर पाकिस्तानी उच्चायोग ने कहा कि उसकी सरकार अमन कारवां के सदस्यों को सुरक्षा प्रदान नहीं कर सकती. पाकिस्तानी सरकार का यह रवैया संदेह पैदा करता है. ये लोग शांति का संदेश लेकर फिलिस्तीनियों की मदद करने ग़ज़ा जा रहे हैं, अब कोई सरकार ऐसे लोगों को सुरक्षा देने से मना कर दे तो इसे क्या माना जाए. इसके अलावा पाकिस्तानी उच्चायोग में कारवां के सदस्यों से जो सवाल किए गए, उनसे भी पाकिस्तान की नीयत का अंदाज़ा लगाया जा सकता है. पाकिस्तानी उच्चायोग द्वारा पूछे गए विभिन्न सवालों में से एक सवाल यह भी था कि क्या पाकिस्तानी पत्रकार तुलाल भी इस कारवां के साथ ग़ज़ा जाएंगे. पाकिस्तान की इजरायल नवाज़ी इस सवाल के बाद पूरी तरह खुलकर सामने आ गई, क्योंकि इजरायल की सरकार ने यह पहले ही ऐलान कर दिया था कि हर व्यक्ति को ग़ज़ा जाने की अनुमति नहीं है. सवाल यह है कि तुलाल को इजरायल ग़ज़ा में दाख़िल होने की अनुमति नहीं देता है तो कोई बात नहीं, लेकिन पाकिस्तान के सामने तुलाल को रोकने की क्या मजबूरी थी.
ग़ज़ा जाने वाले कारवां को दूसरा झटका उस समय लगा, जब उसके 29 सदस्य वाघा सीमा पर पहुंचे. वहां उन्हें पता चला कि वाघा के अधिकारियों के पास ऐसी कोई सूचना नहीं है कि किसी अमन कारवां को पैदल पाकिस्तान जाने की अनुमति दी जाए. इस मौक़े पर कारवां के भारतीय और पाकिस्तानी सदस्यों ने सीमा के दोनों ओर विरोध प्रदर्शन किया. इसके बाद कारवां के सदस्य वापस आने लगे तो पंजाब से दिल्ली आते हुए रात को लगभग 9 बजे सूचना मिली कि वे कल वाघा सीमा पार कर सकते हैं. इस घटना के बाद भारत सरकार का वह चेहरा सामने आ जाता है, जिसका ज़िक्र 2 दिसंबर को महात्मा गांधी की समाधि पर मणि शंकर अय्यर ने किया था कि भारत हमेशा फ़िलिस्तीन का समर्थन करता आया है. लेकिन आज की परिस्थितियां काफ़ी भिन्न हैं और नीतियों में काफ़ी बदलाव आ गया है. यह फ़िलिस्तीन के प्रति भारत सरकार की नीतियों की देन है, वरना अगर कारवां द्वारा डेढ़ महीने पहले दिए गए आवेदन को ख़ारिज़ किया जा चुका था तो इसकी सूचना क्यों नहीं भेजी गई. आख़िरकार ग़ज़ा जाने वाले एशियाई अमन कारवां के 29 भारतीय सदस्यों ने अगले दिन पैदल वाघा सरहद पार की, जहां पाकिस्तान के दर्जनों लोगों ने उनका भव्य स्वागत किया. वाघा सीमा पर ही एक भव्य समारोह का आयोजन किया गया, जिसमें भारतीय कारवां के सदस्यों ने फ़िलिस्तीनी परचम पाकिस्तानी सदस्यों के सुपुर्द किया. इसके बाद सभी सदस्य लाहौर चले गए, जहां 2 दिन रुकने के बाद वे अपने वतन वापस आ गए. फिर यहां से वे हवाई जहाज़ द्वारा ईरान के लिए रवाना हो गए.
ग़ज़ा जाने वाले एशियाई अमन कारवां की रवानगी से पूर्व इन देशों में फ़िलिस्तीनियों के दर्द और उनकी कठिनाइयों को उजागर करने के लिए फ़िल्म, सेमिनार, धरने और जुलूसों का भी आयोजन किया गया. यह कारवां जिन शहरों और देशों से गुज़रा, वहां बड़े-बड़े जलसे और आमसभाएं की गईं. ग़ज़ा से वापस आकर कारवां के सदस्य भारत के 15 बड़े शहरों में कांफ्रेंस करेंगे, ताकि भारत सरकार और जनता फ़िलिस्तीन का उसी तरह समर्थन करे, जिस तरह महात्मा गांधी, पंडित जवाहर लाल नेहरू और इंदिरा गांधी ने किया था, क्योंकि दुनिया भर में  जहां कहीं भी स्वतंत्रता आंदोलन हुए, उन्हें भारत ने समर्थन दिया. महात्मा गांधी कहते थे कि फ़िलिस्तीन उसी तरह फ़िलिस्तीनियों का है, जिस तरह तुर्की तुर्कियों का है, ईरान ईरानियों का और हिंदुस्तान हिंदुस्तानियों का. जिस तरह भारत और पाकिस्तान में इस कारवां को जनसमर्थन मिला, जिस तरह अधिकारियों ने मुश्किलें खड़ी करने की कोशिश की, उससे सा़फ ज़ाहिर है कि कारवां को लेकर भारत, पाकिस्तान और इजरायल की सरकार चिंतित है. अब सबकी निगाहें अमन कारवां पर टिकी हैं. क्या यह ग़ज़ा पहुंच पाएगा, क्या इजरायल इसे गज़ा में घुसने देगा या फिर इस कारवां को भी फ्रीडम फ्लोटिला की तरह रोका जाएगा. अगर इस कारवां को रोका जाता है तो भारत सरकार के लिए मुश्किलें बढ़ जाएंगी और अगर कारवां ग़ज़ा के लोगों तक भारत और एशिया की जनता का पैग़ाम पहुंचा पाता है तो भारत और फिलिस्तीन की जनता के बीच दोस्ती और भाईचारे के इतिहास में यह मील का पत्थर साबित होगा.