Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Monday, March 21, 2011



Tabsara on Khwab-o-Khayal


نام کتاب    :    خواب و خیال(شعری مجموعہ)
مصنف    :    بی ایس جین جوہرؔ
ضخامت    :    456صفحات
قیمت    :    250روپے
ملنے کا پتہ    :  بی7-، انڈسٹریل ایسٹیٹ، پرتاپور، میرٹھ
تبصرہ نگار    :    فرمان چودھری
اردو زبان کی آبیاری میں مسلم ادباء وشعرا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ادباء و شعرانے بھی خون جگر صرف کیا ہے۔ مثال کے طور پر آنند نرائن ملاؔ، رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری،برج نارائن چکبستؔ،پنڈت دیا شنکر نسیم،ؔکنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ ، گلزارؔ دہلوی اور چندربھان خیالؔ جیسے کتنے ہی نام ہیںجنہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اردو زبان کے سیکولر کردار کوفرقہ پرستوں کے سامنے نظیر بنا کرپیش کیا۔ایسے ہی سیکولرازم کے علم بردار ایک شاعربی ایس جین جوہرؔبھی ہیں، جواردو شاعری کی زلف سنوارنے میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب موصوف کا تیسرا شعری مجموعہ ’’خواب وخیال‘‘ہے۔اس سے قبل ان کے دو شعری مجموعے ’’ترانۂ بیداری‘‘ اور ’’سازو مضراب‘‘ دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں موصوف نے اپنی غزلوں ، نظموں، قطعات اوردوہوں کو جمع کیا ہے۔ موصوف کے مجموعہ کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے پورے کے پورے مجموعے کو اردوکے ساتھ ساتھ ہندی زبان میں بھی پیش کردیاہے۔جس سے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی کے قاری بھی اس شعری مجموعے سے مستفیض ہو سکیں گے اور اردو کی حلاوت و شیرینی سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔جوہرؔ صاحب نے اپنے ہندی کے قارئین کے لیے آسانی اس طرح پیدا کی ہے کہ انہوں نے اردو کے مشکل الفاظ کا ہندی میں ترجمہ کرکے نیچے درج کردیا ہے، جس سے ان کی شاعری کو سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہوناہندی داں طبقہ کے لیے مزید آسان ہو گیا ہے۔جوہرؔ صاحب کا ماننا ہے کہ ہندی اور اردو دونوں ایک ہی زبان ہیں۔ دونوں میں صرف رسم الخط کا فرق ہے۔اس لیے شمالی ہند میں جو ہندی اور اردو کا تنازعہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ، یہ اس کا صحیح جواب ہے۔
بی ایس جین جوہر کی غزلوں، نظموں، قطعات اور دوہوں میں سلاست، روانی اور شگفتگی ہے۔ان کی سادہ و سلیس زبان سیدھے قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ موصوف نے بڑی خوش اسلوبی سے ہندی الفاظ کابھی استعمال کیاہے۔ان کی شاعری سے انسان دوستی، بھائی چارہ اور رواداری کا پیغام ملتا ہے۔ بی ایس جین جوہرؔ کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد حسین خاں کہتے ہیںکہ ’’ان کا کلام کلام ِ ناموزوں ، دو لخت اشعار، عیب قافیہ، سقم ِ اجتماع ِ ردیفین ، شتر گربہ، شکست ناروا، ایطائے جلی و خفی، عجز کلام اور غلط تراکیب و محاورات کی خامیوں سے پاک و صاف ہے‘‘۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
انقلاب آتے ہیں دنیا میں سونامی بن کر
دل میں طوفان اٹھا کرتے ہیںساگر کی طرح
گھر میں رونق آگئی سالے ہوئے مہمان
چولھے پر چندن چڑھا، بننے لگے پکوان
مری میت میں تو آنا نہ آنا جیسی مرضی ہو
ترے خوابوں، خیالوں میں توآنا چاہتا ہوں میں
جوہر صاحب کی غزلوں میں نظموں کا مزا آتا ہے ، کیوں کہ ان کی غزلوں کے اشعار باہم مربوط ہیں۔ اسی لیے ان کی غزلوں کو عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار سے اسے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
میں تمہارے بغیر جیتا ہوں
زہر غم روز روز پیتا ہوں
پہلے خوابوں کے جال بنتا تھا
اب پھٹی اوڑھنی کو سیتا ہوں
تم کہا کرتی تھیں کہ رام ہو تم
اور میں بھی تمہاری سیتا ہوں
امید کی جاسکتی ہے کہ غزلوں، نظموں ،قطعات اور دوہوں سے مزین بی ایس جین جوہر کا یہ شعری مجموعہ عوام و خواص میںیکساں مقبول ہوگا۔

Saturday, March 12, 2011

Tabsara on (chaand mera hei)

نام کتاب    :چاند میرا ہے(افسانوی مجموعہ)
مصنف    :    غزالہ قمر اعجاز
ضخامت    :    182صفحات
قیمت    :    200روپے
ملنے کا پتہ    :    بی132-ایم آئی جی فلیٹس،راجوری گارڈن،نئی دہلی
تبصرہ نگار    :   فرمان چودھری

زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادبی سفر میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس کرا رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نمائندگی جتنی ہونی چاہئے اتنی نہیں ہے۔ زیر نظرکتاب ایک خاتون افسانہ نگار غزالہ قمر اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’چاند میرا ہے‘‘نامی اس مجموعے میں غزالہ قمر اعجاز نے اپنے 19افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میںجب کہ انسانی زندگی نفسیاتی پیچیدگی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے اور تمام انسانی رشتے ناتے بوجھ بن گئے ہیں، قمر غزالہ اعجاز نے اپنے افسانوں میں اس درد کو نہایت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے مجموعے کا پہلا افسانہ ’’مقبرہ‘‘اس کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں قمر غزالہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح گھر کے بزرگ اپنے ہی گھر میں خود کو تنہا اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔مثال کے طور پر افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے’’اس وقت بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد سمعیہ دوبارہ سو رہی ہوں گی اور ان کے فرماں بردار شوہر یعنی ہمارے برخوردار اپنی چائے بنانے کے بعد اب اخبار کے مطالعے میں مصروف ہوں گے…..اور میرے وقت سے پہلے پہنچنے پر وہ اخبار مجھے دے کر لان میں لگے پودوں کو پانی دینا شروع کر دیں گے۔گھڑی اس وقت جیسے رک سی جاتی ہے۔سمعیہ ساڑھے آٹھ بجے اٹھیں گی۔ناشتہ میز پر رکھ کر مجھے اس انداز سے بلائیں گی جیسے کہہ رہی ہوں ’نٹھلو کھانے کے سوا تمہارا کام ہی کیاہے‘‘۔
قمر غزالہ نے اپنے افسانے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں پیش کئے ہیں لیکن انہوں نے افسانے کے فن کو کہیں نظر انداز نہیں کیا ہے۔اس لیے ان کا قاری کہیں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ہے۔اس مجموعے کے موضوعات گرچہ روایتی ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہیں۔ ہمارے بیشتر ادیب آج بھی روایت کے خول میں ہی لپٹے ہوئے ہیں۔اس خول سے باہر وہ تب آتے ہیں جب یوروپ کا کوئی ادیب ان سے باہر نکلنے کے لیے کہتا ہے،یا یوں کہیں کہ جگاتا ہے۔بہر حال موصوفہ نے اچھی کوشش کی ہے اور روایتی موضوعات کو انفرادیت کا جامہ پہنایا ہے۔
ان کے بقول افسانہ ایک مکمل تجربہ ہے، جو کبھی ایک لمحے پر تو کبھی پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے۔اپنے اسی تجربے کو انہوں نے اپنے افسانہ ’’زلزلہ آگیا ہے‘‘ میں بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے اور سماج کے فرقہ پرست چہرے پر زبردست چوٹ کی ہے۔’’بند کمرہ‘‘ میں غزالہ قمر نے آفس کلچر اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچا ہے۔’’کھوکھلے رشتے‘‘ میں انہوں نے بڑے شہر میں رہ رہے اس جوڑے کی زندگی سے قارئین کو روبرو کرایا ہے جو اپنی مصروفیت میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے ایک دوسرے کا خیال ہی نہیں رہتا ، لیکن آخر میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو تباہ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ یہ افسانہ ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا انسان صرف کام کرنے کی ہی مشین بن گیا ہے ؟کیا گلوبلائزیشن نے اس کے اندر کے جذبات و احساسات کو بالکل ہی ختم کردیا ہے؟
غزالہ قمر کے افسانے بھی اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اپنیدیگر افسانوں ایک اور سریتا، درار، اپنا انصاف، جیک پاٹ، گھروندا، آئینہ چپ ہے، اسپرنگ، چاند میرا ہے، یکا تنہا، آخری تلاش، دھند، تم کون، ہار، کسک اورسانپ میں بھی انہوں نے اپنے فن کا بخوبی استعمال کیا ہے۔اپنے اس مجموعے میں انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے،جن سے انسانی زندگی شب و روزدوچار ہوتی ہے۔غزالہ قمر نے اپنے افسانوں میں جس طرح انگریزی الفاظ کا جگہ جگہ استعمال کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ انگریزی الفاظ اردو کے ساتھ پوری طرح گھل مل گئے ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ بہترین اور عمدہ سر ورق کے ساتھ غزالہ قمر اعجاز کا یہ افسانویمجموعہ اردو داں حلقے کو ضرور پسند آئے گا۔

Friday, March 4, 2011

Tabsara on subah ki dehleez

نام کتاب    :    صبح کی دہلیز(غزلیہ مجموعہ)
مصنف    :    ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت    :    116صفحات
قیمت    :    100روپے
ملنے کا پتہ    :    ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار    :    فرمان چودھری

اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔

ایک گھر بے درودیوار کا کرکے تعمیر
میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کو اپنا نصب العین بتانے والے ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے نزدیک شاعر کا مقصد خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا ہے ۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے زیر نظر مجموعہ سے قبل دو شعری مجموعے’ احساس کی دھوپ‘ 1983میں اور’ پلکوں پہ خواب‘2003میں جبکہ ایک نثری تصنیف’ قومی ایکتا کے نام ‘ 1983میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ ادبی، سماجی اور تعلیمی انجمنوں میں ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔اسی سرگرمی سے وقت نکال کر وہ اپنے احساسات وجذبات کو شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔
ان کے وعدوں کی ہے ،حقیقت کیا
جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
حالانکہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ کسی خاص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ،پھر بھی ان کی شاعری ترقی پسند نظریات کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔بقول ڈاکٹر علی احمد فاطمی’’ذکی طارق کی شاعری کا بنیادی لب و لہجہ ،فکر اور اسلوب دونوں ہی اعتبار سے ترقی پسند اقدار اور افکار سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن یہ ترقی پسندی روایتی ہر گز نہیں ہے بلکہ آج کی زندگی سے براہ راست وابستگی رکھتی ہے۔اپنے انداز میں اپنے لب و لہجہ میں آج کی حساس اور پر وقار شاعری جو بھی ایمان و ایقان ،مزاج و مذاق ،کردار و رفتار کے تقاضے  رکھتی ہے۔ذکی طارق کی شاعری ان مطالبات کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔