Farman Chaudhary

Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali
Tuesday, March 22, 2011
Monday, March 21, 2011
Tabsara on Khwab-o-Khayal
Monday, March 14, 2011
Saturday, March 12, 2011
Tabsara on (chaand mera hei)
مصنف : غزالہ قمر اعجاز
ضخامت : 182صفحات
قیمت : 200روپے
ملنے کا پتہ : بی132-ایم آئی جی فلیٹس،راجوری گارڈن،نئی دہلی
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادبی سفر میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس کرا رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نمائندگی جتنی ہونی چاہئے اتنی نہیں ہے۔ زیر نظرکتاب ایک خاتون افسانہ نگار غزالہ قمر اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’چاند میرا ہے‘‘نامی اس مجموعے میں غزالہ قمر اعجاز نے اپنے 19افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میںجب کہ انسانی زندگی نفسیاتی پیچیدگی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے اور تمام انسانی رشتے ناتے بوجھ بن گئے ہیں، قمر غزالہ اعجاز نے اپنے افسانوں میں اس درد کو نہایت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے مجموعے کا پہلا افسانہ ’’مقبرہ‘‘اس کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں قمر غزالہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح گھر کے بزرگ اپنے ہی گھر میں خود کو تنہا اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔مثال کے طور پر افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے’’اس وقت بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد سمعیہ دوبارہ سو رہی ہوں گی اور ان کے فرماں بردار شوہر یعنی ہمارے برخوردار اپنی چائے بنانے کے بعد اب اخبار کے مطالعے میں مصروف ہوں گے…..اور میرے وقت سے پہلے پہنچنے پر وہ اخبار مجھے دے کر لان میں لگے پودوں کو پانی دینا شروع کر دیں گے۔گھڑی اس وقت جیسے رک سی جاتی ہے۔سمعیہ ساڑھے آٹھ بجے اٹھیں گی۔ناشتہ میز پر رکھ کر مجھے اس انداز سے بلائیں گی جیسے کہہ رہی ہوں ’نٹھلو کھانے کے سوا تمہارا کام ہی کیاہے‘‘۔
قمر غزالہ نے اپنے افسانے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں پیش کئے ہیں لیکن انہوں نے افسانے کے فن کو کہیں نظر انداز نہیں کیا ہے۔اس لیے ان کا قاری کہیں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ہے۔اس مجموعے کے موضوعات گرچہ روایتی ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہیں۔ ہمارے بیشتر ادیب آج بھی روایت کے خول میں ہی لپٹے ہوئے ہیں۔اس خول سے باہر وہ تب آتے ہیں جب یوروپ کا کوئی ادیب ان سے باہر نکلنے کے لیے کہتا ہے،یا یوں کہیں کہ جگاتا ہے۔بہر حال موصوفہ نے اچھی کوشش کی ہے اور روایتی موضوعات کو انفرادیت کا جامہ پہنایا ہے۔
ان کے بقول افسانہ ایک مکمل تجربہ ہے، جو کبھی ایک لمحے پر تو کبھی پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے۔اپنے اسی تجربے کو انہوں نے اپنے افسانہ ’’زلزلہ آگیا ہے‘‘ میں بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے اور سماج کے فرقہ پرست چہرے پر زبردست چوٹ کی ہے۔’’بند کمرہ‘‘ میں غزالہ قمر نے آفس کلچر اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچا ہے۔’’کھوکھلے رشتے‘‘ میں انہوں نے بڑے شہر میں رہ رہے اس جوڑے کی زندگی سے قارئین کو روبرو کرایا ہے جو اپنی مصروفیت میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے ایک دوسرے کا خیال ہی نہیں رہتا ، لیکن آخر میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو تباہ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ یہ افسانہ ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا انسان صرف کام کرنے کی ہی مشین بن گیا ہے ؟کیا گلوبلائزیشن نے اس کے اندر کے جذبات و احساسات کو بالکل ہی ختم کردیا ہے؟
غزالہ قمر کے افسانے بھی اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اپنیدیگر افسانوں ایک اور سریتا، درار، اپنا انصاف، جیک پاٹ، گھروندا، آئینہ چپ ہے، اسپرنگ، چاند میرا ہے، یکا تنہا، آخری تلاش، دھند، تم کون، ہار، کسک اورسانپ میں بھی انہوں نے اپنے فن کا بخوبی استعمال کیا ہے۔اپنے اس مجموعے میں انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے،جن سے انسانی زندگی شب و روزدوچار ہوتی ہے۔غزالہ قمر نے اپنے افسانوں میں جس طرح انگریزی الفاظ کا جگہ جگہ استعمال کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ انگریزی الفاظ اردو کے ساتھ پوری طرح گھل مل گئے ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ بہترین اور عمدہ سر ورق کے ساتھ غزالہ قمر اعجاز کا یہ افسانویمجموعہ اردو داں حلقے کو ضرور پسند آئے گا۔
Friday, March 4, 2011
Tabsara on subah ki dehleez
نام کتاب : صبح کی دہلیز(غزلیہ مجموعہ)
مصنف : ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت : 116صفحات
قیمت : 100روپے
ملنے کا پتہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
مصنف : ڈاکٹر ذکی طارقؔ
ضخامت : 116صفحات
قیمت : 100روپے
ملنے کا پتہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں،دہلی6-
تبصرہ نگار : فرمان چودھری
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن یعنی غزل نے اگر اپنا لوہا عہد میر اور عہدغالب میں منوایا ،تو اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے ،بلکہ مزید اضافہ ہی ہواہے۔غزل نے جہاں حسن و عشق کی کیفیات بیان کی ہیں، وہیں سماجی مسائل سے بھی بحث کی ہے۔آج جبکہ شاعری کی دیگر اصناف میں تخلیقی کام تعطل کا شکار ہے،وہیںغزل اپنے عروج پر ہے۔بقول پروفیسر شہپر رسول ’’کلاسیکی تہذیبی دروبست کے زمانے سے مابعد جدیدیت کی نام نہاد اصطلاح کے دور تک غزل اپنی داخلی ایمائیت اور فنی و جمالیاتی سحر کاری کے ساتھ ہر اچھے شاعر کی تخلیقی پہنائیوں میں نت نئی سج دھج اور امکانات کے ساتھ جلوہ فرما رہی ہے‘‘۔آج تمام شعرا غزل میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور عصری مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
عصر حاضر کے انہیں شعرا میں سے ایک نام ڈاکٹر ذکی طارق ؔ کا بھی ہے،جو اتر پردیش ریاست کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہیںاور اپنی تمام تر سماجی خدمات سے وقت نکال کر غزل کی زلف کو سنوار رہے ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کا زیر نظر مجموعہ ’’صبح کی دہلیز‘‘خالص غزلیہ مجموعہ ہے۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کی غزلیںاپنے قاری کو چونکاتی ہیں اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی، سلاست اور الفاظ میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی بھی ہے جو انہیں عام غزل گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
ایک گھر بے درودیوار کا کرکے تعمیر
میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کو اپنا نصب العین بتانے والے ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے نزدیک شاعر کا مقصد خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا ہے ۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ کے زیر نظر مجموعہ سے قبل دو شعری مجموعے’ احساس کی دھوپ‘ 1983میں اور’ پلکوں پہ خواب‘2003میں جبکہ ایک نثری تصنیف’ قومی ایکتا کے نام ‘ 1983میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ڈاکٹر ذکی طارقؔ ادبی، سماجی اور تعلیمی انجمنوں میں ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔اسی سرگرمی سے وقت نکال کر وہ اپنے احساسات وجذبات کو شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔میں نے آنگن کی کھلی آب و ہوا رکھّی ہے
یگوں یگوں سے مرے ساتھ اجنبی ہیں بہت
کبھی تو مجھ کو فقط میرا ہم سفر کر دے
میں بھی سنتا ہوں اک اندر کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ان کے وعدوں کی ہے ،حقیقت کیا
جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
حالانکہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ کسی خاص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ،پھر بھی ان کی شاعری ترقی پسند نظریات کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔بقول ڈاکٹر علی احمد فاطمی’’ذکی طارق کی شاعری کا بنیادی لب و لہجہ ،فکر اور اسلوب دونوں ہی اعتبار سے ترقی پسند اقدار اور افکار سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن یہ ترقی پسندی روایتی ہر گز نہیں ہے بلکہ آج کی زندگی سے براہ راست وابستگی رکھتی ہے۔اپنے انداز میں اپنے لب و لہجہ میں آج کی حساس اور پر وقار شاعری جو بھی ایمان و ایقان ،مزاج و مذاق ،کردار و رفتار کے تقاضے رکھتی ہے۔ذکی طارق کی شاعری ان مطالبات کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔جان کر دل فریب کھاتا ہے
بڑا طویل ہے شب کا مہیب سناّٹا
ہمارے پاس تو قصے کہانیاں بھی نہیں
جل رہا تھا چراغ کی لو پر
آندھیوں میں رواں دواں میں تھا
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذکی طارقؔ مستقبل میں بھی اسی طرح سرگرمی کے ساتھ غزل کی نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں اپنے عہد سے آنکھ ملانے اور اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)