Farman Chaudhary

Farman Chaudhary
Apna Kalam pesh karte hue Farman Chaudhary aur stage par tashreef farma hain(Left toRight)Janab Mueen Shadab,Janab Waqar Manvi,Janab Qazi Abrar Kiratpuri,Janab Padam Shri Bekal Utsahi,Janab Qais Rampuri,Janab Fasih Akmal Qadri aur Janab Farooq Argali

Wednesday, July 13, 2011

اردو تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت : اطہر رضوی

کنیڈا میں اردو کا چراغ روشن کرنے والے اطہر رضوی کثیر الجہات شخصیت کے حامل ہیں۔آپ شاعر، سیر نگار، سفر نامہ نویس، مورخ اور محقق ہیں۔آپ کی کئی کتابیں بین الاقوامی شہرت رکھتی ہیں۔آپ نے کنیڈا میں کئی بین الاقوامی عالمی سمینار کرائے ہیں۔آپ غالب اکیڈمی، کنیڈا کے بانی و صدر ہیں، جس کے تحت آپ گزشتہ 25برسوں سے غالب کی زمین میں طرحی مشاعرہ کرارہے ہیں۔گزشتہ دنوں جب وہ دہلی تشریف لائے تھے،تو چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے سینئر نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی نے ان سے خصوصی گفتگو کی۔ گفتگو کے اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال:کنیڈا میں اردوکی کیا صورتحال ہے؟
جواب:کنیڈا میںاس وقت اردو کی جوحالت ہے وہ برطانیہ ، یورپ ،شمالی امریکہ اورہند و پاک کے بہت سے علاقوں سے بہتر ہے۔وہاںاردو کی بہت سی انجمنیں ہیں۔ وہاںاچھی خاصی تعدادمیں جلسے، ادبی تقریبات اور مشاعرے ہوتے ہیں۔آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ وہاں بھی اردو کے حوالے سے یہ سب سرگرمیاں ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے  کہ وہاں اردو کے چاہنے والے اتنے لوگ جمع ہو گئے ہیں کہ وہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔احمد اکرام بریلوی صاحب وہاں رہتے ہیں۔ وہ اردو دنیا کی معمر ترین شخصیت ہیں۔وہاں اردو دنیاکاایک بہت بڑا نام تقی عابدی کا ہے۔وہ غیر معمولی شخصیت کے حامل شخص ہیں۔جس طرح وہ اپنی پروفیشنل زندگی کے ساتھ ادب کی خدمت کررہے ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔ان کی لائبریری دنیا کی عظیم ترین نجی لائبریری ہے۔وہاںاشفاق حسین ہیں، جو بہت اچھے شاعر ہیں۔نسیم سید ہیں،عبداللہ جاوید ہیں،تسلیم زلفی ہیں۔وہاں ایسے بیس پچیس لوگ ہیں جو صاحب کتاب ہیںاور اردوکی اپنے اپنے طریقے سے خدمت کرہے ہیں۔وہاں اردو والوں کا ایک دوسرا طبقہ ہے،جسے اردو کاشوق تو بہت ہے لیکن اتنی علمیت نہیں ہے۔وہ لکھتے نہیںہیں لیکن اردوکو پڑھتے ضرور ہیں۔وہاں تیسرے قسم کے وہ لوگ ہیں جنہیں مشاعرہ میں تفریح کا سامان میسر ہوتا ہے۔وہ مشاعروں میں صرف تفریح کے لیے آتے ہیں۔اس طرح وہاں اردو کے تین قسم کے دوست ہیں۔یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ ٹورنٹو سے اردو کے16 اخبار نکلتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں اردو کے قارئین کی ایک اچھی خاصی تعدادموجود ہے۔
سوال:مجموعی طور پر اردو کا مستقبل کیسا ہے؟
جواب:مجھ سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اردو کا مستقبل کیا ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ جب تک بالی ووڈ کی فلمیں لوگ دیکھتے رہیں گے، اردوزندہ رہے گی۔لیکن یہاں پر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں تک اردو بولنے کی زبان ہے، سمجھنے کی زبان ہے، تفریح کی زبان ہے،رابطہ کی زبان ہے ،وہ تو باقی رہے گی، لیکن نوشتہ زبان ختم ہو جائے گی۔جب ہندوستان میں یہ صورتحال ہے تو باقی ملکو ں کا کیا کہنا۔
سوال:اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتائے؟
جواب:میرا بچپن میری زندگی کا سنہری ترین حصہ ہے۔میری پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ اورنگ آباد میرے لیے غیر معمولی جگہ تھی۔یو پی کے کچھ خاندان سو سال پہلے ہجرت کرکے لکھنؤ سے اورنگ آباد آگئے تھے۔ انہوں نے اپنی تہذیب نہیں بدلی،وضع نہیں بدلی، اطوار نہیں بدلے،مذہبی فرائض نہیں بدلے،اورچونکہ رہ رہے ہیں دکن میں تو نتیجتاًایک ذیلی تہذیب پیدا ہوئی۔آدھی دکنی اور آدھی لکھنوی۔ہم اسی کی پیداوار تھے۔میں نے شاعری وہیں سے شروع کی تھی۔بچپن سے ہی میں سوچتا رہتا تھا۔میں نے 12سال کی عمر میں ہی نظام کے خلاف بہت ساری چیزیں لکھیں۔وہاں کی اپنی ایک تہذیب تھی۔کیا مجال جو ہم بڑوں کے سامنے منہ کھول سکیں۔اسی تہذیب کا ورثہ ابھی بھی شریانوں میں ہے۔میں وہاں سے کراچی گیا۔ چار سال وہاں رہا۔وہیںسے ایم اے کیا۔ پھر لندن گیا۔ گیارہ سال وہاں رہا۔وہاں میں نے شادی کی۔ میری بیوی جرمن ہے۔میرے بچے انگریزی بولتے ہیں اور میں اردو پر مرتا ہوں۔میں آج جو کچھ ہوں وہ مجھے لندن نے بنایا۔لندن نے مجھے سوچنے کی تربیت دی۔دنیا کی سب سے بڑی دانشورانہ درس گاہ لندن ہے۔وہاں اقبال بھی رہے، گاندھی بھی رہے۔لندن بڑے بڑے لوگوں کی قیام گاہ رہا ہے۔میں نے وہاں سیاحت شروع کی اور پڑھنا شروع کیا۔میں برٹش ریلوے میں کام کرتا تھا۔اسی لیے مجھے ٹکٹ مفت ملتے تھے۔ میں لندن سے پیرس ایسے جاتا تھا جیسے آپ یہاں سے کسی قریبی جگہ چلے جائیں۔جب میں اسپین گیا تو اسپین نے میری آنکھیں کھولیں۔میںاسپین کی مسجد قرطبہ میں گیا، جہاں اقبال نے بیٹھ کراردو کی عظیم ترین نظم کہی تھی۔وہاں میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ اسلامی تہذیب بھی کوئی چیز ہے۔ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کیا سوغاتیں چھوڑ رکھی ہیں۔وہاں سے واپس آکر میں نے ترکوں کی تاریخ، عربوں کی تاریخ، اندلس کی تاریخ، ایرانیوں کی تاریخ وغیرہ پڑھنی شروع کیں۔ وہیں سے فلسطین کا مسئلہ مجھ پہ اثر کرتا گیا۔اس کے بعد میں نے گہرائی سے مطالعہ کیا ۔برطانیہ کے لوگوں کی ایک خاص دہنیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کو نوکری دے دیں گے، گھر دے دیں گے لیکن ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔اسی لیے میں لندن کو چھوڑ کر کنیڈا چلا گیا۔ کیوں کہ وہ ایک کھلی جگہ ہے۔وہاں برابر کے مواقع دئے جاتے ہیں۔وہاں میں بڑی بڑی کمپنیوں کے پراسپیکٹس لکھتا تھا۔اس کے بعد میں بیس پچیس سال انشورنس کمپنی میں رہا۔ایک خاص بات یہ ہے کہ میں لندن میں اردو سے زیادہ قریب نہیں تھا۔جب میں ٹورنٹو پہنچا تو وہاں ایک عبدالحفیظ قریشی صاحب تھے۔وہاںانہوں نے پہلی مرتبہ ہندوستانی شعرا کو بلایاتھا۔اس وفد میں کیفی اعظمی تھے،مینا قاضی تھیں، جاں نثار اختر تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی بڑے شعرا ہندوستان سے گئے تھے۔اس مشاعرہ کو دیکھ کرمجھے بڑا مزا آیا۔ میں نے سوچا کہ ایسا ہی مشاعرہ پہلی مرتبہ پاکستانی شعرا کو بلا کر کیوں نہ کرایا جائے۔اس طرح میں نے پاکستانی شعرا کے ایک وفد کو شمالی امریکہ میں پہلی بار بلوایا۔مشاعروں کے علاوہ میں نے بڑے بڑے سمینار بھی کرائے ہیں،جو امریکہ میں کسی نے نہیں کرائے ہیں۔عالمی غالب سمینار، عالمی میر سمینار، عالمی انیس سمینار، اردو تہذیب کی بستیاں سمیناروغیرہ۔ہر سمینار میں میں نے ہندوستان اور پاکستان کے جید عالموں کو دعوت دیکر انہیں بلایا۔میں اپنی بیوی کے ساتھ1981میں نظام الدین کسی کام سے آیا تو دیکھا کہ وہاں غالب کے بارے میں ایک تقریب ہو رہی تھی۔اس کے بعد میں نے ٹورنٹو پہنچ کر غالب اکیڈمی، ٹورنٹو قائم کی۔غالب اکیڈمی ، ٹورنٹو ہر سال غالب کی یاد میں طرحی مشاعرہ کا انعقاد کرتی ہے۔جس میں غالب کے کسی مصرعہ پر شعرا کو کلام کہنے کی دعوت دی جاتی ہے۔یہ مشاعرہ تقریباً25سالوں سے مسلسل ہو رہا ہے۔
سوال:آپ بنیادی طور پر محقق ہیں۔کیا آج تحقیق میں ہونے والے کام سے آپ مطمئن ہیں؟
جواب: آج تو تحقیق کا تصور ہی نہیں ہے۔اردو میں تحقیق کی کتابیں بالکل بھی نہیں آتی ہیں ۔اگر آتی بھی ہیں تو انگریزی میں۔مغرب کے لوگ اس معاملے میں ہم سے سو سال آگے ہیں۔ان کے یہاں ایک مہینے میں پچیس کتابیں آتی ہیں۔تحقیق دراصل علمیت کا اونچا درجہ ہے۔آپ یوں سمجھئے کہ جب آپ شروع کریں گے تو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھیں گے، اس کے بعد افسانے پڑھیں گے، اس کے بعد نقد و نظر پڑھیں گے،پھراس کے بعد ہی دیکھیں گے کہ تحقیقی کام کیا ہو رہا ہے۔میری تمام نگارشات کی بنیاد چار چیزوں پر ہے۔مطالعہ،مشاہدہ،تحقیقات اور معروضات۔
سوال:اپنی شاعری کے بارے میں بھی بتائیے اورہمارے قارئین کے لیے کچھ سنانے کی زحمت بھی کیجئے؟
جواب:یاد کے موتی میراپہلا شعری مجموعہ ہے۔میرادوسرا شعری مجموعہ زیر طبع ہے۔ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
بات خاطر نشین لگتی ہے
زندگی اب رہین لگتی ہے
ان کو جس زاویہ سے دیکھتا ہوں
ان کی صورت حسین لگتی ہے
بات جب عاشقی کی ہوتی ہے
گفتگو بہترین لگتی ہے
ڈرتے ڈرتے غزل سنائی ہے
میر کی یہ زمین لگتی ہے
سوال:کنیڈا میں اردو کے تئیں حکومت کا رویہ کیسا ہے؟
جواب:میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارا ملک اللہ میاںکی نعمت ہے۔وہاں جو خوبیاں ہیں پوری دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔وہاں چار سکھ حکومت میں وزرا ہیں۔وہاں 120 ملکوں کے لوگ رہتے ہیں۔متعد د زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہر ایک کی اپنی سوسائٹی ہیں۔ہر ایک کی اپنی تقاریب ہیں۔انگریزی اور فرینچ وہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔ہر تقریب کے اندر چاہے وہ کسی بھی زبان کی ہو،حکومت کے ایم پی سے لیکر وزیر اعظم تک کوئی نہ کوئی شریک ہوتا ہے۔وہاں اگر آپ کو ئی بھی بڑا پروگرام کرتے ہیں تو حکومت امداد کرتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کنیڈا کا اس میں ضرور ذکر ہونا چاہئے۔وہاں کے کالجز میںاردو پڑھانے کا نظم ہے۔حیدرآباد کے ایک صاحب تو ٹورنٹو میں  بچوں کوبنیادی اردو سکھانے کا کام کررہے ہیں۔ان کے پاس 300بچے ہیں۔کل ملاکر میں یہی کہوں گا کہ کنیڈا کی حکومت سیکولر ہے۔چونکہ تعصب جہالت کا پروردہ ہوتا ہے۔جو آدمی جتنا جاہل ہوگا وہ اتنا ہی متعصب ہوگا۔اس لیے کنیڈا میں تعصب جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
سوال:آخر میں ہمارے قارئین کے لیے کچھ اور عطا کیجئے؟
جواب:ایک غزل حاضر ہے۔
ہوا کی زد میں نصیب سفال کیا ہوگا
قضا اٹل ہے تو اس کا ملال کیا ہوگا
اگر وہ پوچھیں کہ میں کیو ںاداس لگتا ہوں
تو اس سوال سے مشکل سوال کیا ہوگا
میں سوچتا ہوں مسلسل جواب کی خاطر
ترے خیال سے بہتر خیال کیا ہوگا
سکون قلب نہیں جان کی امان تو ہے
اب اس سے اچھا مہاجر کا حال کیا ہوگا
نہ ہم گزیدۂ حالات ہیں نہ اہل طلب
کھرا کھرا جو لکھیںہم کمال کیا ہوگا
غریب بار عنایت اٹھائے سوچتے ہیں
یہی کرم ہے تو ان کا جلال کیا ہوگا
نام کتاب    :    سہ ماہی حسن تدبیر(مدارس نمبر)
مدیر    :    مولانا محمداعجاز عرفی قاسمی
صفحات    :    654
قیمت    :    200روپے
ملنے کا پتہ    :    Q-25 بٹلہ ہاؤس ، جامعہ نگر، نئی دہلی
تبصرہ نگار    :  فرمان چودھری
ہندوستان کے مدارس اسلامیہ تعلیم کے ایسے ادارے ہیں، جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو انسان دوستی،امن عالم، اخوت اور بھائی چارہ گھٹی کی طرح پلایا جاتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ مدارس اسلامیہ نے وطن عزیز کے تحفظ کے لیے بے دریغ قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔اس کے با وجود چند فرقہ پرست عناصر مدارس اور اہل مدارس کو ہمیشہ شک و شبہات کی نظر بد سے دیکھتے رہے ہیں،جو نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ فرقہ پرست یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جس آزاد ملک میں وہ آج کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اسے آزاد کرانے میں انہی مدارس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اس حقیقت سے نئی نسل کو واقف کرانے اور مدارس اسلامیہ کی صحیح تصویر پیش کرنے کے مقصد سے آل انڈیا تنظیم علماء حق نے اپنے سہ ماہی رسالہ حسن تدبیر کا خصوصی شمارہ’’ مدار س نمبر‘‘ کی شکل میں پیش کیا ہے۔اس خصوصی اشاعت کا مقصد بیان کرتے ہوئے مدیر مکرم نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’مثبت مضامین کے ذریعہ اس منفیت کا ازالہ کیا جا سکے جو بہت سے ذہنوں پر طاری ہے اور اس کی بہتر شکل یہی نظر آئی کہ ماضی سے لیکر عہد حاضر تک کے مدارس کی روشن تاریخ اور روایت کے حوالے سے دانشورانہ سطح پر گفتگو کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ معاشرے کی ساخت کو سالم رکھنے اور صحیح قدروں کی ترویج میں مدارس نے کتنا اہم رول ادا کیا ہے‘‘۔
اس خصوصی اشاعت سے قبل حسن تدبیر کے کئی خصوصی شمارے دیگر موضوعات پر شائع ہو چکے ہیں۔ مثلاً حکیم الامت نمبر، حکیم الاسلام نمبر، امام العصر نمبر اور محدث عصر نمبر وغیرہ۔ لیکن ان اشاعتوں میں مدارس نمبر اس لیے زیادہ اہم ہے کہ آج نہ صرف برادران وطن بلکہ خود برادران اسلام بھی مدارس اسلامیہ کے شاندار ماضی سے نابلد ہیں۔
مذکورہ نمبر کوتین حصوںباب مدارس، باب تعلیم اور باب تنظیم کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔باب مدارس میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔باب تنظیم میں آل انڈیا تنظیم علماء حق کی تاریخ اور خدمات کا ذکر ہے۔جبکہ باب تعلیم کے تحت شامل مضامین میں دینی مدارس کی اہمیت، افادیت اورمدارس کو درپیش چیلنجزکے تعلق سے مبسوط مضامین شامل کئے گئے ہیں۔حصہ  باب تعلیم دیگر دو ابواب کے مقابلے زیادہ ضخیم ہے اور اہم بھی۔اس حصہ میں دینی مدارس اہمیت اور افادیت(مولانا سید رابع حسنی ندوی) دینی مدارس، اصلاح وقت کی اہم ضرورت(ڈاکٹر محمد طاسین) دینی مدارس کا نصاب و نظام اور عصر حاضر کے تقاضے(پروفیسر اختر الواسع) ملک و ملت کی ترقی اور استحکام میں مدارس اسلامیہ کا کردار(مفتی افروز عالم قاسمی) ہندوستان میں آزادی کے بعد مدارس اسلامیہ کی خدمات(ابرار احمد اجراوی)عربی مدارس کا نصاب تعلیم اور عصری تقاضے(مولاناندیم الواجدی)دینی مدارس کے اساتذہ کا سماجی رول(مولانا وارث مظہری) مدارس کا ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج(مفتی اعجاز ارشد قاسمی) جیسے بہت سے مضامین ہیں، جنہیں پڑھ کر مدارس اسلامیہ کی عظمت کا لوہا مانے بغیر کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں رہ سکتا۔دینی مدارس اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں کے عنوان سے تحریر اپنے مضمون میں نسیم احمد غازی فرماتے ہیں’’مسلمانوں پر ایک بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اور انہیں نہ صرف یہ کہ ان حالات کو بدلنا ہے بلکہ مدارس کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے سلسلے میںہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ایک خاص گروپ کے عزائم نہایت خطرناک ہیں۔عقلمندی اور دانشمندی اسی میں ہے کہ ان واضح اشاروں کو محسوس کیا جائے اور کوئی مثبت لائحہ عمل تیار کیا جائے‘‘۔
کل ملاکر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سہ ماہی حسن تدبیر کا یہ خصوصی شمارہ مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن شاید اس کی اشاعت میں بہت جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہے کیونکہ شمارہ میں پروف کی بہت سی غلطیاں ہیں۔بہر حال امید کی جاتی ہے کہ یہ خصوصی شمارہ دینی مدارس کے متعلق پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کے ازالہ میں معاون ثابت ہوگا۔